گھنٹے میں یہ لوگ آئے اور یہ پریشان کن خبر سنائی کہ ہم چھ لوگوں میں سے مولوی محمد عامر کا پاسپورٹ ویزے میں گڑبڑی کی وجہ سے نہیں آسکا ہے ،اس لئے بقیہ لوگوں کے بھی پاسپورٹ نہیں ملے۔ عشاء کی نماز کے بعد میں خود حج ہاؤس گیا اور حج افسر تنویر احمد صدیقی سے ملا ، انھوں نے بتایا کہ ویزے کی تصویر کی اسکیننگ صحیح نہیں ہوسکی ہے ، اس لئے پاسپورٹ روک لیا گیا تھا ،آج بمبئی سے روانہ سے کردیا گیا ہے کل مل جائے گا ، آپ لوگ صبح دس بجے آجائیں انشاء اﷲ پہلی ہی فلائٹ سے ۔۔۔۔۔جس میں ہم لوگوں کی سیٹ کنفرم ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ سے روانہ کردیا جائے گا۔ لیکن ایسا ہوا نہیں ، دوسرے دن ساڑھے نو بجے حج ہاؤس پہونچے ، پہلے تو یہ اعلان ہوا کہ تمام لوگوں کے پاسپورٹ آگئے ہیں ، یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ، لیکن تھوڑی ہی دیر میں یہ اعلان ہوا کہ پاسپورٹ آج نہیں آسکا ہے کل آجائے گا ، یہ سن کر جذباتِ شوق پر اوس پڑ گئی ، بڑی حسرت ویاس کے ساتھ بوجھل قدموں سے حاجی منظور صاحب کے یہاں آگئے ، پھر امید وبیم کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا ،ہمیں تسلیاں دی جاتی رہیں کہ آج چلے جائیں گے کل چلے جائیں گے ، حضرت مولانا کی معیت حاصل تھی ، ان کی ذات سراپا اطمینان وتوکل تھی، میں نے مشکل سے مشکل اور سخت سے سخت حالات میں بھی کبھی ان کو پریشان ہوتے نہیں دیکھا، ان کا وجود سراپا تسلی تھا، ان کو دیکھ کر ہمیں تسلی حاصل ہوتی تھی۔
جمعرات کے روز شام کوحضرت مولانا نے کہا کہ مفتی صاحب سے ملنے چلنا ہے، مفتی صاحب سے مراد دار العلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم حضرت مولانامفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ ہیں ، حاجی صاحب کے صاحبزادے حاجی محمد صالح اپنی گاڑی سے ہم لوگوں کو لے کر حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں پہونچے ، مغرب کے وقت ان کی مسجد میں ملاقات ہوئی۔ مغرب بعد ان کے گھر پہونچے ۔ حضرت مولانا کا تعلق حضرت مفتی صاحب سے بہت قدیم ہے، اور دونوں کے درمیان بہت بے تکلفی ہے، جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب سے حضرت مولانا نے اپنی باقاعدہ تدریسی زندگی کاآغاز کیاتھا ، یہ تعلق اسی وقت