سے الوداعی مصافحہ بڑا رقت آمیز اور اثر انگیز تھا ، بالخصوص معصوم بچوں کو چھوڑ کر جانے کا دل پرکافی اثر تھا،اس وقت اماں کی بہت یاد آئی جو ابھی ساڑھے چار ماہ پہلے داغ مفارقت دے گئی تھیں ۔ بوقت رخصت سب کی آنکھیں نمناک تھیں ، خود میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑنے کیلئے بے تاب تھے لیکن بہت ضبط کیا ، اہلیہ کی حالت سب سے قابل رحم تھی، سب کیلئے دعائیں کیں ، باری تعالیٰ انھیں قبول فرماکر اس کے اثرات کو ظاہر فرمائیں ۔آمین
نوبجے گھر سے نکلا، میرے خالہ زاد بھائی شہزاد احمد گاڑی لے کر آئے ، استاذی مولانا فضل حق صاحب اور الحاج فضل حق دادا کے ہمراہ مدرسہ کیلئے نکلا، راستہ میں مدرسہ شیخ الہند انجان شہید میں رفیق مکرم مولانا مفتی ذیشان احمد صاحب سے ملاقات کیلئے حاضر ہوا، تھوڑی دیر وہاں رک کر شیخوپور پہونچا تو مسجد میں حضرت مولانا کی تقریر ہورہی تھی جس میں تمام طلباء واساتذہ حاضر تھے ، ہم لوگ بھی جاکرمجمع میں شامل ہوگئے۔
تقریر ختم ہونے کے بعد سب سے الوداعی مصافحہ کیا گیا، پھر کھانا کھاکر ظہر کی نماز ادا کی گئی ،اور اس سفر سعادت کا آغاز ہوا، پہلی منزل جامع مسجد اعظم گڈھ تھی جہاں مولانا انتخاب عالم صاحب اور ان کے مدرسین سے ملاقات ہوئی ، شہر کے اور بہت سے لوگ بھی ملاقات کیلئے آگئے تھے،جن میں ہمارے محب ومحبوب بزرگ دوست ڈاکٹر سلمان صاحب بھی تھے، سب سے مصافحہ ومعانقہ کرکے نکلے اور مدرسہ اشاعت العلوم کوٹیلہ پہونچے ، وہیں عصر کی نماز مثل اول پر پڑھ کر روانہ ہوئے، جامعہ اسلامیہ میں مولانا انوار احمد صاحب خیرآبادی کے یہاں چائے پی گئی ، آگے بڑھے تو کٹولی کے حافظ رئیس صاحب کے یہاں رکے، مغرب کی نماز چولاپور کے قریب ایک ہری ہری عیدگاہ میں ۔۔۔۔۔جس پر عیدگاہ قادری ، برکاتی ، رضوی ، عزیزی اور اس طرح کے بہت سارے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔۔۔۔ اداکی گئی۔ سات بجے کے قریب چوکا گھاٹ پہونچے وہیں مقبول عالم روڈ پر گوتم بدھ ٹریڈ سینٹر میں عارضی حج ہاؤس بنایا گیا ہے ، ہم لوگ دوگاڑیوں میں تھے ، حضرت مولانا نے فرمایا کہ تم لوگ حاجی منظور صاحب کے یہاں چلے جاؤ، ہم لوگ ٹکٹ اور پاسپورٹ لے کر آتے ہیں ، آدھ