سے قائم ہے۔ حضرت مفتی صاحب بہت ظریف اور باغ وبہار شخصیت کے مالک ہیں ، جب ان کو معلوم ہوا کہ ہماری فلائٹ کل تھی اور فلاں دقت کی وجہ سے اب تک نہیں جاسکے ہیں تو کہنے لگے ایسے چپکے چپکے کیسے آپ لوگ چلے جائیں گے بغیر ملے ہوئے ، ملاقات ہوگئی اب انشاء اﷲ جائیں گے، عشاء تک وہیں رہے ۔ ان دونوں بزرگوں کی گفتگو سے ہم لوگ خوب محظوظ ہوئے ،فلائٹ کے مس ہونے سے طبیعت پر جو گرانی اور ملال کی کیفیت تھی وہ بالکل دور ہوگئی اور طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔ ہمارے حضرت مولانا بہت ٹھنڈا پانی پیتے تھے، اور جو پانی آیا وہ کم ٹھنڈا تھا ، مولانا نے کہا کہ پانی ٹھنڈا نہیں ہے، مفتی صاحب اپنے صاحبزادے ابوعمیر سے کہتے ہیں کہ جاؤ ’’ اولیائی ‘‘ پانی لے آؤ، تو خوب ٹھنڈا پانی لے آئے۔ بزرگان دین کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مطابق واقعہ بھی ہے یہ لوگ بہت زیادہ ٹھنڈا پانی پیتے ہیں ۔مفتی صاحب کی اس تعبیر پر مجلس دیر تک زعفران زار رہی، عشا کی نماز پڑھ کر وہاں سے واپسی ہوئی۔
جمعہ کے دن حضرت مولانا کی نئی کتاب ــ’’ حج وعمرہ ومسائل کے مسائل میں غلو اور اس کی اصلاح‘‘ چھپ کر ٹرانسپورٹ میں آگئی ہے، اس کتاب میں ان لوگوں کا احتساب کیا گیا ہے جو حج وعمرہ کے مسائل میں غیر معمولی غلو اور تشدد سے کام لیتے ہیں ،اور بالخصوص احناف کو طعن وتشنیع بلکہ تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں ۔ قاری ظہیر اﷲ صاحب سے کتاب منگوائی گئی،اور حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں اس کے دس نسخے پیش کئے گئے کہ جو علماء حج کیلئے جائیں ان کو دیدیں ۔ جمعہ سے پہلے حج ہاؤس گیا تو معلوم ہوا کہ پاسپورٹ آگیا ہے جمعہ کے بعد مل جائے گا ۔جمعہ کی نماز حاجی صاحب کے گھر کے سامنے مدرسہ والی مسجد میں پڑھی گئی ، نماز سے پہلے حضرت مولانا کا وعظ وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِسْمَاعِیْلَ اِنَّہُ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَبِیًّْاپر ہوا۔
نماز کے بعد تین بجے حج ہاؤس پہونچا تو پاسپورٹ آچکا تھا ، اور صبح کی پہلی فلائٹ میں سیٹ کنفرم ہوئی، اوردو تین روز کی ذہنی اذیت کا خاتمہ ہوا ، اپنی مصلحتوں کوتو اﷲ ہی بہتر