میں گفتگو ہوئی اور مئی کی آخری تاریخوں میں فارم بھرے گئے، اس سلسلہ میں تمام تر ذمہ داری حضرت مولانا کے محب ومحبوب دوست الحاج سلیم احمد عرف پپو بھائی نے لی، اور ہمیں اس بار سے پورے طور سے سبکدوش کردیا۔جزاہ اﷲ احسن الجزاء
رفقائے سفرمیں حضرت مولانا اور اس سیہ کار کے علاوہ حضرت مولانا کے فرزندان گرامی قدر مولانا محمد عابد ، مولانا محمد عامر اور مولانا محمد راشد صاحبان اور منشی عبد السمیع صاحب تھے، ۶؍افراد پر مشتمل ہمارا قافلہ تھا۔اﷲ کا فضل شامل حال رہا کہ قرعہ اندازی میں ہم لوگوں کا نام آگیا ،ورنہ امسال تو کوٹے سے دگنا درخواستیں تھیں ، کوٹہ تقریباً ۳۰؍ہزار اور درخواستیں ۶۰؍ہزار کے قریب! الحمد ﷲ حمداً کثیراً
وقت تیزی کے ساتھ گزرتا رہا ، جولائی کے آخری دنوں میں درخواست منظور ہوئی اور دیکھتے دیکھتے اکتوبر کا مہینہ آگیا، معلوم ہوا کہ ۳۰؍ اکتوبر کو فلائٹ ہے ، اس سے دودن پہلے بنارس حج ہاؤس کسی کو بھیج کر رپورٹنگ کرانی ہے، حضرت مولانا نے اپنے صاحبزادے مولانا محمد عامر اور قاری ظہیر اﷲ صاحب کو ۲۸؍ اکتوبر کو بنارس بھیج دیا، یہ لوگ رات میں سیٹ کنفرم کرواکے آگئے لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ فلائٹ کا وقت کیا ہے؟
میں روانگی سے ایک ہفتہ قبل مدرسہ سے رخصت لے کر گھر آگیا ، کہ اعزاواقربا اور متعلقین سے ملاقات کرلوں ، اس دوران دعوتوں کی وہ کثرت رہی کہ الامان والحفیظ، شاید ایک وقت بھی گھر کھانے کی نوبت نہ آسکی، اب حجاج کی دعوتوں کی ایک رسم سی بن گئی ہے جس کو بجالانا دوست احباب اور رشتہ دارضروری سمجھتے ہیں ، اس لزوم کی وجہ سے اب یہ واجب الترک ہے۔
۳۰؍ اکتوبر کو فلائٹ تھی، اس لئے ۲۹؍ اکتوبر بدھ کو بنارس جانا تھا ، پروگرام یہ بنا کہ بدھ کی صبح گھر سے مدرسہ جائیں اور وہاں سے حضرت مولانا کے ہمراہ بنارس۔ فجر کی نماز کے بعدبہت سے لوگ ملاقات کیلئے آنے لگے ، اس میں ۸؍ بج گئے،اس کے بعد غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر ساڑھے آٹھ بجے گھرسے نکلنے کیلئے تیار ہوگیا ، اہلیہ ، بچوں اور دیگر اہل خانہ