قدموں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوا،پھر عشاء کی نماز کے بعد ۱۰؍ بجے بس آئی اور ہم لوگ اس میں بیٹھ گئے ، افتخار اعظمی بھی ساتھ میں تھے، ان کے فون کی گھنٹی بجی ، وہ خوشی میں بس سے نیچے اترے ، اور تھوڑی دیر میں واپس آئے ، اور آکر بتایا کہ جامعہ اسلامیہ کے جس طالب علم سے فتاویٰ ابن تیمیہ کے متعلق بات ہوئی تھی ، وہ کتابیں لے کر آئے ہیں ، پھروہ طالب علم بھی آگئے ،مل کر وہ بھی بہت خوش ہوئے ، مجھے بھی خوشی ہوئی ، میں نے پوچھا کہ فتاویٰ ابن تیمیہ مکمل ہیں ، اس نے کہا جی ہاں مکمل ہیں ، پھر وہ چلے گئے اور دوبارہ آکر ایک عطر ہدیہ میں پیش کیا ، اور بوتل میں پانی دم کرایا ، کتابیں کارگو سے آئیں گی۔
ساڑھے گیارہ بجے بس چلی ، اور جلد ہی ایرپورٹ پہونچ گئی ، وہاں کافی دیر تک بس کی جیل میں بند رہے ، جب سامان تولا جاچکا تب رہائی ملی ،سامان لوگوں کے مقررہ وزن سے زیادہ تھے ، ۴۵؍ کلو تک کی گنجائش ہے ، حجاج زیادہ سے زیادہ سامان خریدتے ہیں ، لیکن کسی سے کوئی کرایہ چارج نہیں کیا گیا۔
سوا تین بجے ہوائی جہاز کے اندر پہونچے ، جہاز والوں نے مسافروں کے لئے سیٹ نمبر کی تصریح نہیں کی تھی ، لوگوں کو اپنی اپنی سیٹ پرا ز خود قبضہ کرنا تھا ، اس کی وجہ سے بہت بدنظمی اور انتشار کی کیفیت تھی ، مسافروں میں چیخ پکار، دھکم دھکا کاوہ سماں تھا کہ پناہ بخدا! میں ایسے مواقع پر ہمیشہ پیچھے رہتا ہوں ، لیکن ماشاء اﷲ عادل سلّمہ پہلے پہونچ گئے ، انھوں نے دوسیٹیں گھیر لیں ، میں دیر میں پہونچا ، میرے دوست قاری شمیم احمد صاحب گورینی والوں کے ساتھ مجھے بھی سیٹ مل گئی۔الحمدﷲ
پونے چار بجے کے قریب جہاز اُڑا ، چھوٹا جہاز تھا ، اسے شارجہ میں ایندھن لینے کے لئے اترنا تھا ، چنانچہ ۶؍بجے سعودی وقت کے لحاظ سے اور شارجہ کے وقت کے لحاظ سے ۷؍ بجے اترا ، وہاں ایک گھنٹہ ٹھہرا ، پرواز سے پہلے اعلان ہوا کہ تین گھنٹے میں جہاز وارانسی پہونچ جائے گا ، بحمد اﷲ ۱۲؍ بجے وارانسی کے ہوائی اڈے پر پہونچ گیا۔
وارانسی کے جو جہاز اب تک آئے تھے ، ان میں حاجیوں کے سامان نہیں آئے تھے ،