جدہ سے تشریف لائے ، رات کا کھاناڈاکٹر شمیم صاحب بنوا کر لے آئے ۔
فجر کی نماز کے بعد رسول اکرم ا کی بارگاہ میں اور حضرات شیخین رضی اﷲ عنہما کی خدمت میں سلام پیش کرنے کے لئے حاضر ہوا۔ مواجہہ شریف میں سلام کرکے میں کنارے کھڑا ہوا درود شریف پڑھنے لگا ، عجیب بات ہے ، وہاں جو پولیس کھڑی رہتی ہے اور جو مطوع نگرانی کرتے رہتے ہیں ، وہ زور زور سے چلا چلاکر کھڑے ہونے سے منع کرتے ہیں ، اور بعض تو پوری تقریر کرنے لگتے ہیں ، انتظام کے لئے ٹھہرنے نہ دینا جبکہ بھیڑ ہو ، مناسب ہے ، لیکن جہاں کھڑے ہونے سے کسی کا آنا جانا متاثر نہیں ہوتا ، وہاں سے بھی بھگاتے رہنا ، سمجھ میں نہیں آتا ۔ حضور اکرم ا کی موجودگی میں چلانا، تقریریں کرنا ، تو سخت بے ادبی معلوم ہوتی ہے ،ا یک طرف وہ ہیں ، جو ادب اور محبت میں غلو کرتے ہیں ، اور ایک طرف یہ سعودی نجدی مولوی اور عوام ہیں کہ انھیں بے ادبی میں غلو ہے۔
میں آج عشاء کی نماز کے بعد صوفی مجیب الرحمن صاحب کی خدمت میں الوداعی مصافحہ کے لئے حاضر ہوا، توو ہ قرآن کریم کے ادب کے متعلق فرمارہے تھے کہ اﷲ کی کتاب کا ادب کرنا ضروری ہے ، اور کسی کو جو نعمت ملتی ہے ، وہ ادب ہی سے ملتی ہے ، اور اب یہ حال ہے کہ تلاوت کریں گے ، تو قرآن شریف زمین پر رکھ دیتے ہیں ، کتنی بے ادبی ہے۔
اور واقعی غیر مقلدیت اور نجدیت نے اس قدر بے ادبی پھیلا رکھی ہے کہ الامان والحفیظ۔ ہم یہاں ہندوستان میں رہتے ہیں ، اور ہمیں ہمارے بزرگوں نے سکھایا ہے کہ قبلہ کی طرف پاؤں مت پھیلاؤ، یہ ادب کے خلاف ہے ، اور یہاں لوگ مسجد حرام میں ٹھیک خانۂ کعبہ کی طرف پاؤں پھیلاتے ہیں ،اور اسی طرح سوتے ہیں ، قرآن کریم کے ساتھ بھی بکثرت بے ادبی کا معاملہ کرتے ہیں ، زمین پر رکھ دینا تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ بعض ظالم تو نماز پڑھتے ہوئے ، قرآن پاک کو سامنے زمین پر رکھ دیتے ہیں ، سجدہ کرنے میں وہ دونوں گھٹنوں کے بیچ میں آجاتا ہے۔
پھر مزید ستم یہ کہ اگر کوئی شخص ادب کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ، تو اسے ٹوکتے ہیں