دوجمروں پر اطمینان سے دعائیں کیں ، پھر لوٹ کر مغرب کے وقت خیمے میں آگئے ، وہاں مغرب کی نماز ادا کی ، اس کے بعد معلم کی بس میں بیٹھے ، ہم لوگ مطمئن تھے کہ ان شاء اﷲ اپنی بلڈنگ کے پاس اتریں گے ، سامان ساتھ میں تھا ، اس لئے پیدل جانے کی ہمت نہیں کی گئی ، بس چلی ، اس میں کچھ حجاج عزیزیہ میں اور کچھ شیشہ میں اترنے والے تھے ، ہماری بلڈنگ کے ہمیں دوتھے ، اﷲ جانے ڈرائیور راستہ بھول گیا یا کیا ہوا، پھر جا م میں بھی خوب پھنسا ، بس ہمارے محلہ اجیاد تک نہ جاسکی ، اور بارہ بج گئے ۔ ڈرائیور اکتا گیا ، گھبرا گیا ، ہم لوگ اور زیادہ تکلیف میں تھے ، اس نے ہمیں کُدَیْ میں اتاردیا ، مفتی صاحب کی رہبری میں کچھ دور پیدل چلے ، کئی ٹیکسیاں رکوائی گئیں ، مگر ان کا کرایہ ناقابل تحمل تھا ،۳۰؍ ریال فی کس مانگ رہے تھے ، جبکہ فاصلہ دوتین کلومیٹڑ سے زیادہ نہ تھا ، میں ذہنی اذیت کی وجہ سے تھک کر چور تھا ،بالآخر ایک ٹیکسی ملی جس نے ۵؍ریال فی کس کے حساب سے ، بلڈنگ کے ٹھیک سامنے اتاردیا، ساڑھے بارہ بج رہے تھے ، یہاں آکر عشاء کی نماز ادا کی ، عشاء کی نمازکے بعد مفتی صاحب اپنی قیامگاہ پر چلے گئے ، ان کی قیام گاہ خاصے فاصلے پر تھی ، ہم لوگ فوراً سوگئے ، معمول کے مطابق فجر سے کافی پہلے آنکھ کھل گئی ، نمازِ فجر کے لئے حرم جانے کی ہمت نہ ہوسکی ، یہیں نماز جماعت سے ادا کی ، اور پھر سوگئے ، بحمد اﷲ حج کے ارکان سے فارغ ہوگئے ۔
’’ یااﷲ! ہم کمزوروں نے بھاگ دوڑ کرلی ، آپ کے پیغمبر نے اور ان کے برگزیدہ اصحاب اور آپ کے نیک بندوں نے تو عبادت کی تھی، ہم لوگ ان کی نقل کرتے رہے ، جہاں وہ گئے ہم بھی گئے ، جیسے جیسے انھوں نے کیا ہم نے بھی کیا ، جہاں وہ ٹھہرے ہم بھی ٹھہرے ، لیکن یہ صرف صورت کی نقالی تھی ، حقیقت اور باطن کہیں بھی ان کی پیروی نہ کرسکا، نہ وہ دل ، نہ وہ دماغ، نہ وہ مزاج ، نہ وہ طبیعت ، نہ وہ جذبہ ، نہ وہ اخلاص ،نہ وہ للٰہیت ، بس ایک بے جان سا ڈھانچہ بن گیا ، یہ مردہ عمل کس لائق ہے ، مگر اے اﷲ ! ہم سے جو کچھ ہوسکا ، وہ یہی ہے ، آپ کی قدرت ہے … اور بے شک آپ قادر مطلق