بہرحال دعائیں کیں اور بہت دن تک کیں ،ہا! یہاں حضرت خواجہ میر دردؔ کی ایک رباعی سن لیجئے ، جو مدتوں میری زبان پر رہی ، اور اب بھی جب یاد آجاتی ہے ، تو دل پر کیف وسرمستی کی ایک گھٹا چھا جاتی ہے، قلب کا ہر ریشہ بھیگ جاتا ہے ، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ، فرماتے ہیں ؎
اتنا پیغام دردؔ کا کہہ دے
جب صبا کوئے یار میں گزرے
کون سی شب وہ آئیں گے
دن بہت انتظار میں گزرے
میں یہ رباعی پڑھتا تھا ، اور دل میرے تصور کو کبھی مدینہ طیبہ اور کبھی مکہ مکرمہ ،کبھی عرفات، کبھی مزدلفہ اور کبھی منیٰ میں لے جاتا تھا ، میں نے تصور کی نگاہوں سے اس دیار قدس کو اتنی بار دیکھا ، مسلسل دیکھا کہ گویا میں یہیں کا رہنے والا ہوں ۔
۱۸؍ سال کی دعا کے بعد پہلا سفر ۱۴۰۹ھ (۱۹۸۹ء) میں نصیب ہوا ، پھر تو وقفہ وقفہ سے یہ سعادت مسلسل ہوگئی ۔ میں مدرسے کا آدمی ہوں ، جب میراسفر ہوتا ، تو میرے طلبہ مجھ سے کہتے کہ ہم لوگوں کے لئے بھی اس سفر کی دعا کردیجئے ، پھر میں اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرتا رہا ہوں ، اب ان دعاؤں کی قبولیت دیکھ رہا ہوں ، کئی سال سے متواتر میرے طلبہ، جو میری طرح عربی مدارس میں قلیل تنخواہ پر دین کی خدمت کررہے ہیں ، ظاہری سامان ان کے پاس کچھ نہیں ہے ، مگر پہونچانے والا انھیں مسلسل حج بیت اﷲ کیلئے پہونچا رہا ہے ، اس سال بھی دیکھ رہا ہوں کہ متعدد طلبہ حاضر بارگاہ ہیں ۔
(۱) مولوی محمد عاصم سلّمہ صاحبزادہ حضرت ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہٗ
(۲) مولوی مفتی اطیعواﷲ صاحب فیض آبادی
(۳) مولوی مفتی محمد اظہار الحق صاحب کلکتہ
(۴) مولوی محمد اظہار سلّمہ ،استاذ مدرسہ شیخ الاسلام ، شیخوپور، اعظم گڈھ
(۵) مولوی محمد منصور مہراج گنجی سلّمہ ، امام مسجد مدور،کرناٹک
(۶) مولوی مجیب الرحمن ارریاوی سلّمہ ، مدرسہ قاسم العلوم ، مالیکی، بھرت پور ، راجستھان