کی نماز کی صحت کے لئے چند شرطیں ہیں ، ان شرطوں کے بغیر جمعہ کی نماز درست نہیں ہوتی، منجملہ ان شرائط کے ایک ’’اذن عام ‘‘ہے، کہ نمازِ جمعہ جہاں ادا کی جارہی ہے ، ہر کس وناکس کو آنے کی اجازت ہو ، کوئی رُکاوٹ نہ ہو ، اور منیٰ میں خیموں کا حال یہ ہے کہ خود خیمے والے اپنا کارڈ دکھائیں ، تو داخل ہوں ، دوسرا تو داخل ہوہی نہیں سکتا ، الا باجازت۔
اس حال میں اگر جمعہ کی نماز خیموں کے مجموعے میں ادا کی جائے ، تو کیا نماز ادا ہوگی ؟ میں اس اشکال کو حل کرنا چاہتا تھا ، میرا رُجحان یہ تھا کہ ظہر کی نماز پڑھی جائے ، یہی گفتگو ہم چند لوگوں کے درمیان ہورہی تھی کہ ہردوئی کے مولانا افضال الرحمن صاحب تشریف لائے ، ان کے سامنے میں نے یہ مسئلہ رکھا ، انھوں نے بتایا کہ قاری خلیق اﷲ صاحب کے یہاں حکیم کلیم اﷲ صاحب اور مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب جمع تھے ، اور باہم جمعہ کی نماز کا مذاکرہ ہورہا تھا ، اور یہی طے ہواتھا کہ خیموں میں جمعہ کی نماز ادا کی جائے گی ، میں نے مفتی ابوالقاسم صاحب کو فون لگایا ، انھوں نے تصدیق کی ، اور فرمایا کہ ہم اپنے خیمے میں جمعہ کی نماز ادا کریں گے ، اذن عام کے متعلق حضرت اقدس تھانوی علیہ الرحمہ کے حوالے سے بتایا کہ اگر کسی قلعے میں آبادی ہے ،اور انتظاماً قلعہ کا دروازہ بند ہے ، لیکن قلعہ کے باشندوں کو کسی ایک جگہ جمع ہونے کی سہولت ہو ، تو اسے بھی اذن عام ہی کے حکم میں قراردیا جائے گا ۔( امداد الفتاویٰ ، ج:۱، ص: ۶۱۳؍۶۱۴، فتاویٰ دار العلوم ،ج:۵ ، ص: ۱۰۵تا ۱۰۷) اسی طرح کی صورتحال منیٰ کے خیموں کی ہے ، کہ ایک حلقے میں کثیر تعداد میں خیمے ہیں ، دوسرے حلقہ والوں کو اس حلقہ میں آنے کی اجازت عام نہیں ، لیکن خود اس حلقے کے لوگ بے تکلف کسی ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں ، مفتی صاحب کی بات سے اطمینان ہوگیا ، اور میں نے بھی جمعہ کا اعلان کردیا ، تین چار خیموں کے پردے کی دیواروں کو لوگوں نے ہٹاکر ایک بڑا ہال بنادیا ، اور عزیزم مولوی جمال احمد سلّمہ کی امامت میں جمعہ کی نماز ادا کی گئی ۔
جمعہ کی نماز کے بعد مفتی عبد الرحمن صاحب آگئے ، عصر کی نماز پڑھ کر ان کی معیت میں رمی جمرات کے لئے ہم لوگ نکلے ، پورے اطمینان سے تینوں جمرات پر کنکریاں ماریں ،