دوسری رکعت میں تھا کہ ایک صاحب آئے ، اور میرے دائیں مصلیٰ بچھا کر کھڑے ہوگئے ، میں سمجھ گیا کہ یہ مغرب یاعشاء کی نماز کی نیت سے میری اقتداء میں کھڑے ہوگئے ہیں ، انھیں عرفات سے یہاں پہونچنے میں دیر ہوئی ہے ، وہ بغیر کسی تحقیق کے اقتداء میں آگئے ہیں ،اور ایسا یہاں بہت ہوتا ہے ، ایک شخص کوئی نماز پڑھ رہا ہو، یہاں کے لوگ بے تکلف اس کی اقتدا کسی بھی نماز میں کرلیتے ہیں ، نہ کوئی مسئلہ اور نہ کوئی قانون! میں نے دوسری رکعت پر سلام پھیرا تو یہ اٹھ کر اپنی نماز پوری کرنے لگے ، میں نے اٹھ کر پھر نیت باندھ لی ، خیر ہوئی کہ یہ صاحب پھر شریک نہیں ہوئے ۔
جب فجر کا وقت ہوگیا تو عزیزم حافظ محمد عادل سلّمہ نے اذان دی ،مفتی عبد الرحمن صاحب نے فجر کی نماز پڑھائی ، نماز کے بعد میں ذکر ودعا میں مشغول ہوگیا ،مفتی صاحب اسی جگہ کھڑے ہوکر دعا میں مشغول ہوگئے ، اور باقی لوگ سونے کی تیاری اور فضول گفتگو میں مصروف ہوگئے ، ایک صاحب نے مجھ سے چائے کے لئے پوچھا ، میں معذرت کی ، اتنے میں دوسرے صاحب چائے لے کر آگئے ، اب معذرت کی گنجائش نہ تھی ، وہ مفتی عبد الرحمن صاحب کو تلاش کرنے لگے ، میں نے اشارہ کیا، وہ وہاں وقوف میں ہیں ، ایک صاحب جو قریب لیٹے ہوئے تھے ، کہنے لگے وہ وہاں کیوں کھڑے ہیں ، میں سمجھ گیا کہ انھیں کچھ معلوم نہیں ، میں نے بتایا کہ وقوفِ مزدلفہ کا یہی وقت ہے ، اس وقت ذکر ودعامیں لگنا چاہئے ، وقوف عرفات کا یہ تکملہ ہے ، رسول اﷲ ا نے عرفات میں تین اہم دعائیں کی تھیں ، دو کی قبولیت تو وہیں ظاہر ہوگئی تھی ، ایک دعا کی قبولیت جو مظالم (۱) سے متعلق تھی ، اس کی قبولیت یہاں ظاہر ہوئی تھی ، یہ بہت اہم وقت ہے ، انھوں نے جب یہ بات سنی تو چونکے اور کہنے لگے، یہ بات تو سب کو بتادینی چاہئے ، میں نے کہا ہاں ، پھر انھوں نے آس پاس والوں کو بآوازِ بلند متنبہ کیا ، پھر لوگ ذکر ودعا میں لگ گئے ، تھوڑی دیر میں نے بھی کچھ عرض کیا ، ان لوگوں نے دعا کے لئے کہا ، میں نے ہاتھ اٹھا دئے ، حق تعالیٰ کی جانب سے ایک خاص
(۱) حاشیہ اگلے صفحہ پر