الرحمن صاحب نے بتائی تھی ، انھوں نے کہاتھا کہ آپ عرفات آجائیے اور مجھے فون سے اطلاع کردیجئے ، میں آپ کو آکر لے لوں گا ، میں نے اپنے خیمے کا کارڈ آپ لوگوں کے لئے لے لیا ہے ، کبری ملک عبد العزیز ہماری قیام گاہ سے ایک کیلو میٹر کے فاصلے پر تھی ، وہاں پہونچے ہی تھے کہ ایک ایمبولینس جاتی ہوئی ملی ، ہم نے اسے رکوایا ، ڈرائیور اردو بولنے والا تھا ، اس نے کہا کہ مکتب نمبر ۶ پر ابھی بس آنے والی ہے ، انڈین حج مشن والوں نے انتظام کردیا ہے ، آپ وہیں چلے جائیں ، میں نے سوچا کہ ایک کیلو میٹر چل کر آئے ہیں ، پھر اتنا ہی واپس جائیں ، اور اﷲ جانے بس کا حال کیا ہو، میں نے اسے قبول نہیں کیا ، کبری پر چڑھ گئے ، اﷲ تعالیٰ کی مدد تھی کہ فوراً ایک ٹیکسی مل گئی ، اس سے ہم لوگ بارہ سوا بارہ تک عرفات پہونچ گئے ، ڈرائیور نے ۵۰؍ ریال لئے ، اور عرفات کے باہر اتاردیا ، ہم لوگ تھوڑی دور پیدل چل کر عرفات کی حد میں داخل ہوگئے ، مفتی عبد الرحمن صاحب کو فون کیا ، وہ عجلت میں بھاگتے ہوئے آئے ، انھیں دیکھ کر تمام کلفت ختم ہوگئی، وہ ہمیں اپنے خیمے میں لے کر چلے ، خیمہ دور تھا، مگر ان کی معیت میں دوری کااحساس نہیں ہوا ۔ ان کے خیمے میں پہونچے، یہ خیمہ ان باہری حجاج کا تھا ، جو سعودی عرب میں کسب معاش کے لئے مقیم ہیں ،سعودی میں اقامت گزیں افراد کو یہاں کی اصطلاح میں داخلی حجاج کہتے ہیں ، اس خیمے میں ہندوستانی ، پاکستانی اور بنگلہ دیشی حجاج تھے ، ان تینوں ملکوں کے حجاج مسلکاً زیادہ تر حنفی ہیں ، لیکن سعودی عرب میں رہ کر غیر مقلدیت کا رُجحان ان میں سرایت کرگیا ہے ،اور غیر مقلدیت کا ترجمہ ہے اباحیت اور سہولت پسندی ! اس اباحیت اور سہولت پسندی نے جہالت اور نفس پرستی سے مل کر دین اور دینی اعمال کا کھلواڑ بنادیا ، کوئی قانون نہیں ، کوئی دستور نہیں ، کسی عمل کے لئے کوئی شرط نہیں ، جیسے جی چاہا ، جو جی چاہا عمل کرلیا ، سب ٹھیک ہے۔
ہم خیمے میں پہونچے تو یہ کش مکش چل رہی تھی کہ ظہر اور عصر کو جمع کیا جائے ، یا الگ الگ ان کے وقت پر پڑھا جائے ، حنفیہ کے نزدیک بڑی جماعت جس کا امام ، سلطان کا نائب ہوتا ہے ، جمع کرنے کے لئے اس کا ہونا شرط ہے ، اس کی بنیاد یہ ہے کہ ہر نماز کا الگ