آدمی کا باطن ، ظاہر بن کر ابھر آتا ہے ، پھر ہجوم کا سفر ، اس سے خود غرضیوں کا جذبہ اور سامنے آجاتا ہے ، بہت سے حالات حجاج کی عجلت اور بے ڈھنگے پن کی وجہ سے پیدا ہوجایا کرتے تھے ، انتظام کے سر الزام کم جاتا تھا ، مگر ۱۹۹۲ء میں کویت ، عراق جنگ کے بعد سعودی عرب کے مالی اور اخلاقی حالات میں نمایاں انقلاب آیا ہے ، امریکہ کی طاقت نے اس جنگ کے بہانے سعودی عرب میں قدم جمایا ، اور یہاں کی حکومت اس کے اشارے کی غلام بن گئی ، اس کے بعد یہاں کے مالی حالات میں تنگی آئی ، اور اخلاقی حالت بھی بدلی ۔ معلمین کو حکومت کی جانب سے خیمے الاٹ کئے جاتے ہیں ، اور کتنے بڑے خیمے میں کتنے حاجی رکھے جائیں گے یہ بھی متعین کیاجاتا ہے ، مگر معلمین اس میں یہ تصرف کرتے ہیں کہ کچھ خیمے یہ پرائیویٹ صاحب ثروت اداروں کو فروخت کردیتے ہیں ،اور باقی خیموں میں تمام حجاج کو ٹھونس دیتے ہیں ، اس میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ متعدد حاجی خیموں میں جگہ سرے سے پاتے ہی نہیں ، پچھلے سال حج میں ہمارے جاننے والے کئی حاجی اسی طرح کٹی پتنگ کی طرح پریشان رہے ، اس سال خیموں کاکارڈ تو سب کو ملا ، مگر جگہ بہتوں کو نہیں ملی ۔
میرے بیٹے حافظ محمد عادل سلّمہ نے ایک جگہ سامان رکھ دیا ، اور بیٹھنے بھر جگہ بناکر وہیں بیٹھ گیا، مجھے بھی بیٹھایا ، بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ خیمے کے باہر راستوں پر چادریں بچھاکر پڑگئے ۔ بیٹھ جانے کے بعد تھوڑی دیر میں نمازِظہرکا وقت ہوگیا ،جاننے والوں نے نماز کے بارے میں مجھے ہی ذمہ دار بنایا ، ظہر کی نماز کے لئے جب لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھے ، اور تھوڑی تھوڑی گنجائش نکلی ،تو عادل نے پاؤں پھیلانے بھر جگہ بنائی ، تنگی سے ، دقت سے ، خیر کسی طرح جگہ بن گئی ، اس طرح کہ رات کو سویا تو میرے سرپر ایک صاحب کاپیر پڑتا ، اور میرا پیر میرے بیٹے کے بدن پر پڑتا ، خیر گزر کرنی تھی کرلی ، پچھلے حجوں میں تجربہ تھا کہ معلم کا آدمی آکر ہر حاجی کی جگہ متعین کردیا کرتا ، اب کی مرتبہ دفتر میں شکایت کی گئی تو کچھ کہہ کر ٹال دیا ، اور کوئی آدمی اس مسئلہ کو دیکھنے بھی نہیں آیا ، معلم کی بلڈنگ میں جو مجلس ہوئی تھی ، اس میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی ، انھوں نے میری بڑی رعایت کی۔ جزاھم اﷲ خیر الجزاء