، نہ کوئی انتظامی الجھن سامنے آئی ، عارف سلّمہ اپنی خداداد قوت اور صلاحیت سے سب انتظام کرلیتے ، اور میں ان کے انتظام میں بے فکری کے ساتھ اپنے معمولات میں مشغول رہتا۔
حج کے سفر میں کمزوروں کے لئے جو سب سے مشکل مرحلہ آتا ہے ، وہ ہے ارکانِ حج کی ادائیگی کے لئے پانچ روزہ عمل ،مکہ شریف سے منیٰ ، منیٰ سے عرفات ، عرفات سے مزدلفہ ، مزدلفہ سے منیٰ،پھر رمی جمرات ، طوافِ زیارت کے لئے مکہ شریف جانا اور طواف ِزیارت کرنا، طوافِ زیارت کرکے منیٰ لوٹنا، پھر آخری رمی کرکے مکہ شریف جانا۔ اچھے اچھے طاقت ور اس مرحلے میں تھک کر چور ہوجاتے ہیں ، کیونکہ حجاج کرام کا پورا مجمع جو ۳۰؍۴۰؍لاکھ پر مشتمل ہوتا ہے، بیک وقت نقل وحرکت کرتا ہے، اس لئے اس میں سواریاں پیدل سے پیچھے رہ جاتی ہیں ، زیادہ تر لوگوں کو پیدل ہی چلنا پڑتا ہے۔ میں پیدل چلنے سے معذور، مفتی عبد الرحمن صاحب نے ویل چیر کا انتظام کیا ، اورعارف سلّمہ نے نہایت مستعدی سے اسے تھامااور مجھے اس پر بٹھایااورمنیٰ ، عرفات اور مزدلفہ کی وادیوں میں اسی بھیڑبھاڑ اور ہجوم میں مجھے چلاتے رہے، مجھے رہ رہ کر خیال ہوتا تھا ، ان کا پہلا حج ہے، اور اسی میں دوہری مشقت میں پڑگئے ، مگر عارف سلّمہ نے نہ کہیں اکتاہٹ محسوس کی ، نہ گھبراہٹ، بلکہ کہیں تکان کی بھی شکایت نہیں کی ، ہمہ وقت ایک نشاط ایک خوشی وسرمستی ان پر چھائی رہتی ، بیٹے نے نیم معذور باپ کی ایسی خدمت کی کہ اﷲ ہی جانتا ہے کہ کتنی دعائیں ، صرفِ شکرانہ ہوئیں ۔
مسجد حرام اور مسجد نبوی میں ہجوم کے وقت یہ حال ہوتا ہے کہ لوگ شروع ہی میں بیٹھ جاتے ہیں ، اور آگے کی طرف جگہ خالی رہتی ہے ، عارف سلّمہ اس انداز کو خوب سمجھ گئے تھے ، وہ مجھے لے کر مسجد میں جاتے ، تو ابتدائی ہجوم میں نہ کہیں رکتے ، نہ مجھے رکنے دیتے ، آگے ایسی جگہ پہونچادیتے جہاں خوب فراغت سے جگہ مل جاتی، پھر وہ مسجد حرام میں طواف کے لئے آگے چلے جاتے اور خوب طواف کرتے ، اور اُدھر ہی جہاں جگہ مل جاتی نماز کی جماعت میں شامل ہوجاتے، اور ضرورت کے وقت میرے پاس آجاتے ، بندے کا حق بھی