انھوں نے ،’’اِکْسَڑْوَا‘‘ اور کلوہی سے لے کر نیپال کے اندر بھیراواں اور بُٹْوَل تک کا پروگرام بنارکھا تھا ۔ ہر روز دووعظ ہوتے ۔ ایک بعد نمازِ ظہر اور ایک بعد نمازِ مغرب! مولانا کی برکت سے یہ پروگرام کامیاب رہا ۔ مسلمانوں پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ، اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے قبول فرمائیں ۔
(۲) ہمارے دوسرے رفیق سفر ، میرے بہت ہی عزیز دوست مولانا لیاقت علی سلّمہ تھے، سفر حج کے محرک درحقیقت یہی تھے ، انھیں کی تحریک پر چھ آدمیوں کا یہ قافلہ تیار ہوا تھا ۔ مولانا لیاقت علی سلّمہ نے ابتدائی اور متوسط تعلیم مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپورمیں حاصل کی ۔ دوسال کے لئے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر تعلیم مکمل کی۔ دار العلوم سے فراغت کے بعد بمبئی چلے گئے ، اور ایک مسجد میں امام وخطیب ہوئے ، کچھ عرصے کے بعد بھنڈی بازار میں ایک نئی مسجد تعمیر ہوئی ، تو منتظمین نے انھیں دعوت دے کر اس میں بلا لیا ، اب عزت وتکریم کے ساتھ یہیں اپنے کارِ منصبی کی انجام دہی میں مشغول ہیں ۔
جب سے بھنڈی بازار کی اس مسجد میں وہ امام ہیں ، میرے بمبئی کے میزبان اور صاحب انتظام وہی ہیں ، عموماً سال میں ایک دومرتبہ بمبئی کا سفر ہوہی جاتا ہے ، اور اکثر انھیں کی تحریک پر ہوتا ہے، تو میزبانی انھیں کے ذمہ ہوتی ہے، یہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے حلقے میں مقبول ومؤثر ہیں ، ان کی وجہ سے ان کے دوستوں کا حلقہ بھی بہت محبت کرتا ہے ۔ حج کے سفر میں ان کی رفاقت کی وجہ سے بہت آسانیاں رہیں ، چونکہ کچھ حروف مجھ سے پڑھ رکھے ہیں ، اس لئے اس کا حق خوب ادا کرتے ہیں ، اﷲ انھیں ہمیشہ بعافیت رکھے اور دین کی خدمت میں لگائے رکھے ۔
(۳) حج کے ایک ساتھی برادر عزیز مولانا حافظ حمیداﷲ ندوی تھے ، یہ بھی بمبئی کی کسی مسجد میں امام وخطیب ہیں ، مستعد صالح نوجوان، خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار، ضلع بستی کے رہنے والے، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فاضل! کھانا پکانا خوب جانتے ہیں ، ان کی وجہ سے رفقاء کو صبح کی چائے ،ناشتہ اور دونوں وقت کھانا سادگی کے ساتھ نہایت عمدہ مل جایا کرتا