مشغلے سے وابستہ رہے ، لیکن ایک وقت میں کچھ خاص حالات ایسے پیش آئے کہ قضا وقدر کے فیصلے نے انھیں مکہ شریف کے دروازے یعنی جدہ پہونچادیا ، اب عرصے سے جدہ میں مقیم ہیں ۔ یہاں بھی تعلیم وتدریس کا شغل ہے ، اور خوش قسمتی یہ ہے کہ ہرسال حجاج کرام کی خدمت میں سرگرم رہتے ہیں ، اﷲ ہی جانتا ہے کہ کتنے حاجیوں کو ان سے راحت حاصل ہوتی ہے اور ان کی دعاؤں سے سرفراز ہوتے ہیں ، حاجیوں کی ہرخدمت بغیر عذر کے کرتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ نے انھیں ایک وصفِ خاص سے نوازا ہے کہ جس کام کا قصد کرتے ہیں ، آسانیاں قدم بڑھا کر آجاتی ہیں ۔
اس سال ۹؍ ذی الحجہ یوم عرفہ جمعہ کے روز تھا ، اس کی وجہ سے ہجوم میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا تھا ، میں اور میرے فرزند حافظ محمد عارف سلّمہ عرفات میں مسجد نمرہ کے قریب ازدحام میں اس طرح گھر گئے تھے کہ نماز کے لئے نہ رکوع کی گنجائش تھی ، اور نہ سجود وقعود کی ، ایک سڑک کے حاشیہ پر جماعت کی نماز اشاروں سے ادا کررہے تھے ، جماعت کی نماز سے فراغت کے بعد جب ہجوم کو جنبش ہوئی ، اور ایک جگہ تھوڑی سی گنجائش ملی ، تو ظہر کی نماز اپنی جماعت کے ساتھ ادا کی ، پھر عصر کو اس کے وقت پر ادا کرنا تھا ۔ اب جائیں تو کہاں جائیں ، اپنے معلم کے خیموں تک پہونچنے کی کوئی صورت نہ تھی، میں فالج کے باعث ٹانگوں کی کمزوری میں گرفتار، پیدل چلنے سے معذور، ویل چیر پر سوار، حق تعالیٰ سے دعائیں کیں اور مفتی عبد الرحمن صاحب کو فون کیا ، تو ہمیشہ کی طرح نہایت آسان راہ نکل آئی ، وہ بول رہے تھے کہ آپ جہاں ہیں وہیں رہئے ، میں قریب ہی ہوں اور آرہا ہوں ، پھر چند منٹ میں وہ آگئے ۔ ویل چیر انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی ،اور اپنے خیمے میں لے کر چلے گئے ۔ وہاں باطمینان وقت پر عصر کی نماز پڑھی ، انفرادی اور اجتماعی دعائیں ہوئیں ،مغرب تک بہت اچھا وقت گذر گیا۔ عرفات کی گھڑیاں جو اضطراب میں منتشر ہورہی تھیں ، سکون وعافیت سے ہمکنار ہوئیں ۔
سورج غروب ہوا تو پیدل ہی مزدلفہ روانگی ہوئی ، رہبر مفتی عبد الرحمن تھے ، ویل