بہت دیر لگتی ہے ، یہ حقیر بندہ ایک بار عین اسی زمانۂ ازدحام میں حاضر ہوا تھا۔ میں اپنے ضعیف جسم اور کمزوریٔ قلب نیز فطری کاہلی کی وجہ سے سفر میں ہمہ وقت ایک معاون کا محتاج ہوتا ہوں ، اور معاون بھی ایسا جس کا مزاج مجھ سے ہم آہنگ ہو، اس وقت میں ایسے کسی رفیق سے محروم تھا ، جان ضیق میں تھی ،طواف کررہاتھا اور دعا کررہا تھا کہ یا اﷲ! کوئی ایسا رفیق عنایت فرمائیے ، جو آپ کا مقبول بندہ ہو ، اور میرے لئے راحت کا سامان ہو، پھر سعی کررہا تھااور یہی دعا کررہا تھا ، طواف وسعی سے فارغ ہوکر نظر اٹھا اٹھا کر اپنی دعا کی قبولیت تلاش کررہاتھا ، پھر دعا کرتے ہوئے مسجد حرام سے باہر نکلا ، لیکن نگاہوں کے سامنے دعا کی قبولیت کے آثار ظاہر نہ ہوئے ، ابھی چند ہی قدم مسجد کے دروازے سے نکل کر صحن مسجد کی جانب بڑھا تھا کہ ایک مسکراتا چہرہ نظر آیا ، قدرے درازقد ہمہ محبت وہمہ محبوبیت! پرانا جانا پہچانا چہرہ ، دل کی دنیا میں بسا ہوا منور چہرہ، میں لپک کر آگے بڑھا اور بے ساختہ لپٹ گیا، کہ میری دعا کتنی جلد قبول ہوگئی ، اﷲ تیری مہربانی ! اب مشکل آسان ہوگئی ، حج کرنا آسان ہوگیا ، سفرکا ہر مرحلہ آسان ہوگیا ، یہ چہرہ اپنے جلو میں آسانیاں رکھتا ہے۔
یہ تھے میرے پرانے رفیق اور دوست مولانا مفتی عبد الرحمن صاحب غازی پوری ، عمر میں مجھ سے قدرے کم ہیں ، لیکن خدمات کے لحاظ سے ان کا رتبہ بہت بلند ہے، میں ۱۹۷۵ء میں مدرسہ دینیہ غازی پور میں مدرس تھا ، تو یہ اسی وقت جامعہ مظاہر علوم سہارن پور سے درس وافتاء کی تکمیل کرکے مدرسہ دینیہ میں استاذ بن کر آئے ، اور پھر بالکل گھل مل گئے ، خدمت کا انھیں فطری ذوق ہے، اسی ذوق اور جذبہ کے تحت انھوں نے خدمت کا بیڑا اٹھایا اور اتنی خدمت کی کہ میں ہمیشہ کے لئے ان کا ممنونِ کرم ہوگیا ، ان دنوں میں ایک بار سخت بیمار ہوا ، اور ڈیڑھ ماہ فرشِ علالت پر پڑا رہا ۔ ان کی خدمتیں میں کبھی نہیں بھول سکتا ، تیمارداری کے تمام لوازم انھوں نے بحسن وخوبی اس طرح انجام دیئے کہ دل ان کی محبت سے لبریز ہوگیا۔
بہت ذی استعداد عالم ہیں ، معتبر مفتی ہیں ۔عرصہ تک درس وتدریس کے مبارک