اشتیاق صاحب مظفر پورکے نام نامی قابل ذکر ہیں ۔ حضرت کے شیخ ومرشد حضرت مولانا عبد الواحد صاحب سے ملاقات تو تاروں بھرے گگن پر مہتاب کے دیدار کے مانند تھی ، حضرت شیخ فالج کے تازہ ترین حملے اور درازیٔ عمر کے باوجود عشق الٰہی میں کشاں کشاں چلے آئے تھے ، ان سے ملاقات کے نقوش اب بھی دل پر ثبت ہیں ۔ جدہ میں بھی حضرت شیخ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔
مفتی عبد الرحمن صاحب غازی پوری سراپا خدمت بن کر اکثر وبیشتر جدہ سے مکہ آتے رہے ، حضرت نے فرمایا کہ آسانیاں مفتی عبد الرحمن کے ساتھ چلتی ہیں ، اس کا خوب مشاہدہ ہوا، تقریباً روزانہ ہی بعد نمازِ عشاء باب ملک عبد العزیزکے باہر حضرت کے شناسا اور معتقدین سے ملاقات ہواکرتی تھی ، مولانا امیر الحسن ، امام جامع مسجد جمشید پور ، حکیم رشید احمد صاحب مبارکپوری اور مولانا ابوسعد صاحب بارہا عشائیہ کے لئے اپنی قیام گاہ پر لے گئے ، جامع مسجد شہر اعظم گڈھ کے امام مولانا انتخاب عالم صاحب قاسمی کی صحبت بھی خوب رہی ، ان کی سادگی اور نیکی کا اثر اب تک دل پر ہے ، حضرت کے نوجوان شاگرد مولانا فرقان (انجان شہید) نے خوب ساتھ دیا ، بعد حج بارہا ان کے ساتھ مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
حج کے دن آگئے ، قافلہ منیٰ پہونچ کر خیمہ زن ہوا، عرفات کی طرف جب کوچ کرنے کا وقت آیا تو مفتی عبد الرحمن صاحب کی رہنمائی میں ہم روانہ ہوئے ،وہاں ایک پرائیویٹ ایجنسی کے خیمے میں ٹھہرے ، حضرت کی موجودگی نے روح میں سوزوگداز پیدا کردیا ، دعا آنسو بن کر عرفات کی مٹی میں جذب ہوتی رہی ، دل کو ایک گونہ آسودگی حاصل ہوئی، شام ہوئی تومزدلفہ روانگی ہوئی ، کچھ دوری پیدل طے کی ، پھر گاڑی مل گئی ، ایک جگہ کاانتخاب کرکے مزدلفہ میں اتر گئے ، رات سرد تھی مگر دل گرم تھا، یہ احساس ہی حرارت پیدا کرنے کے لئے کافی تھا کہ اﷲ کاایک برگزیدہ بندہ ساتھ ہے ، کتنا پاکیزہ سفر تھا ، ہرقدم نیکی کی طرف اٹھ رہا تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ گناہ گرد راہ بن کر پیچھے چھوٹ رہا ہے۔ منیٰ پہونچ کر