کشمیری سے براہ راست ملاقات کی ، پہلی ہی ملاقات میں ملک صاحب اس قدر متاثر ہوئے کہ ہرکام آسان ہوگیا، منظوری کا مژدہ ملتے ہی حضرت نے مجھے خبر کی ، میں وارفتگی کے دوش پر سوار ہوکر ممبئی پہونچا،حضرت بھائی اسلم صاحب کے چھوٹے مگر خوبصورت مکان میں مقیم تھے ، ہر طرح کی سہولت اور آسانی رہی ۔
آخر وہ مبارک ومسعود ساعت آہی گئی جس کے لئے دن گنے جاتے تھے ، اب احرام باندھ کر جہاز پر سوار ہونے کا مرحلہ تھا ، مخلصین کے جھرمٹ میں ہم ایرپورٹ پہونچے ، طائرتخیل نے تو پہلے ہی مسافت طے کرلی، البتہ جہاز شام دیر گئے جدہ کے وسیع وعریض ایرپورٹ پر پہونچا، ضروری کاروائی میں رات کا بیشتر حصہ گذر گیا، فجر کے وقت مکہ مکرمہ کی سرحد پر بس رُکی ، نمازِ فجر ادا کی گئی ، پھر روانگی ہوئی ، جذبۂ عشق اور حالت خوف کے ملے جلے احساسات کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخلہ ہوا، معلم کے دفتر پر بس نے خاصا وقت لیا ، خیال تھا کہ بیت اﷲ شریف سے دور عزیزیہ میں کہیں ٹھہرائے جائیں گے ، لیکن واہ رے اﷲ کی مہربانیاں ! بہت ہی قریب ، بیت اﷲ سے چند فرلانگ پر واقع مسفلہ کے ایک ہوٹل میں جگہ ملی ، کمرہ میں ہم دو کے علاوہ مدھیہ پردیش کے دوچار لوگ تھے ، ضلع دھار ، مدھیہ پردیش کے نثار خاں اور ان کی اہلیہ پہلی ہی نظر میں حضرت پر نثار ہوگئے ، ان کا کچھ ایسا حال ہواکہ حضرت کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کے لئے بیکل ہوگئے ، مجھ سے بھی سفارش وپیروی کرائی ، انھیں یہ شرف مدینہ منورہ پہونچ کر حاصل ہوا۔
قیام گاہ پر پہونچ کر ذرا سی دیر میں تیار ہوکر ایک خوفزدہ بچے کی طرح اﷲ جل شانہٗ کے بیت مقدس کی دہلیز پر قدم رکھا، کعبہ پر نظر پڑتے ہی ایک ہیبت طاری ہوگئی ، بے ساختہ زبان پر دعا جاری ہوگئی اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں ، تشنگی بڑھتی گئی ، آبِ زمزم نے آتش عشق کو اور بھڑکادیا، شب وروز حضرت کی معیت میں اﷲ کی یاد میں گذرنے لگے، حضرت کے تعلق سے بہت سارے علماء وزہاد سے ملاقات ہوئی ۔ مولانا ازہر صاحب رانچی، مولانا اجمل غازی پوری، مولاناذاکر ابوالقاسم اڑیسہ، مولانا غلام رسول صاحب مغلسرائے، مولانا