سرحد پر پہونچ رہے ہیں ۔ ایک بار حج کرچکے ہیں ، دوسری مرتبہ کا شوق دل میں لئے ہوئے ہیں ، (۱) مجھ سے کہہ رہے تھے کہ سوچتا ہوں کہ حج کا فارم بھردوں ، لیکن جی چاہتا ہے کہ آپ بھی ساتھ ہوں ، میری دبی ہوئی تمنا نے انگڑائی لی ، سمٹی سمٹائی آرزونے کروٹ بدلی ، جذبۂ دل قابو سے باہر ہوا ہی چاہتا تھا کہ میں سنبھل گیا ، اور ضبط کرتے ہوئے کہا کہ ضروربھردیجئے ، اور میرا بھی! انھوں نے کہا کہ انتظام کیا ہوگا، میں نے کہا جس خدا نے آرزو دی ہے ، وہی تکمیلِ آرزو کا سامان بھی کرے گا۔
پھر فارم کے سارے مرحلے طے ہوگئے، فارم بھیج دیا گیا ، اور منظوری کے دن گنے جانے لگے ، آج قرعہ اندازی ہورہی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ آج نتائج مرتب ہورہے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ آج ڈاک کے حوالے ہورہے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ انتظار پر انتظار ہوتا رہا، میں اپنی بدحالی کی وجہ سے خائف ہورہا تھا کہ کہیں میری وجہ سے دوسرے نصیبہ وروں کا نصیبہ بھی جواب نہ دے جائے ، انتظار ختم ہوا، اور نتیجہ جو نکلنا تھا ، نکلا ، یعنی ایک کی وجہ سے چار اور محروم ہوئے۔
لیکن ہمارے دوست بھی دھن کے پکے ہیں ، فلاں ایم پی صاحب بہت رسوخ رکھتے ہیں وہ ضرور منظور کرادیں گے ، پھر نہ پوچھئے کتنی محنت کرڈالی گئی ، اعظم گڈھ اور دلی کی طنابیں ملادی گئیں ، لیکن بگڑی تقدیر کو کس کی تدبیر بناسکتی ہے ۔ آہ! ایک شخص کی سیہ بختیوں نے کئی ایک کی امیدوں کی شمع کو بجھا کر رکھ دیا ۔ یہ سال نکل گیا ، اب دوسرے سال انشاء اﷲ فارم بھرے جائیں گے۔
اگلا سال آیا (۱۴۰۹ھ) اخبارات میں حج کا اعلان شائع ہوگیا ، خیال تھا کہ آخری تاریخوں میں فارم بھردئے جائیں گے ۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میرے دو نہایت مخلص دوست (۲)
(۱) حاجی عبد الرحمن صاحب خیرآباد،ضلع مؤ کے رہنے والے ، ایک مخیراور صاحب دل تاجر! اﷲ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں سے نوازا ہے ، ان کا ذکر اس سفرنامہ میں بار بار آئے گا۔احقر مرتب کے والد محترم!
(۲) میرے محبوب دوست مولانا عبد الرب صاحب اعظمی اور بدرِ عالم جہاناگنج ،ضلع اعظم گڈھ کے رہنے والے ہیں ۔