تو سب کچھ ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ لوگ تو اپنے سازوسامان اورمال ودولت کے سہارے جائیں ، اور لے جانے والا تم کو یونہی پہونچادے ، پھر یونہی پہونچائے جانے والوں کا ایک طویل سلسلہ ذہن ودماغ اور تخیل وتصور کی نگاہوں میں پھرنے لگاکہ شوق میں چلے جارہے ہیں ، ہاتھ بھی خالی ، جیب بھی خالی ، لیکن دل غیبی توکل سے مالامال ہے۔
مگر لاحول ولاقوۃ …… کہاں وہ اہل شوق کا قافلہ؟ اورکہاں تم بے زادوراحلہ! ان کے پاس شوق وتمنا اور اعتمادوتوکل کا توشہ تھا، اور تمہارے پاس کیا ہے؟ خبردار! ادب کا مقام ہے ، تم نے اگر اس قافلہ کی ریس کرنی چاہی تو یہ بڑی بے ادبی ہوگی، یہی خیالات تھے اور نہ جانے کیا کیا ؟ وہ سب حسرتیں اب کہاں یاد؟ بس آنکھوں میں آنسو جھلملارہے تھے ۔
بڑے میاں نے چلتے چلاتے کہا تھا کہ جب اس دیارِ پاک کا خیال آئے اور جب حج وزیارت کا شوق بے تاب کرے تو دل ہی دل میں لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ، پڑھ لیا کرو۔ میں عرصہ سے یہی عمل کررہا تھا ، پھر حق تعالیٰ نے قبول فرمالیا ، میں نے اپنے دل سے پوچھا کہ کیا ایسا کروگے؟ جواب آیا کہ ہمت نہیں ہے ، میرا یہ منہ نہیں ہے کہ وہاں حاضری کا حوصلہ کرسکوں ، دل کہہ رہا تھا کہ تم حقارت اور نکمے پن کی اس پستی میں ہو کہ وہاں کا تصورکرنا بھی تمہاری حیثیت سے زیادہ ہے …باادب ، باملاحظہ، ہوشیار… میں مرجھا کر رہ گیا ۔ دل کے قویٰ جواب دے گئے ، طبیعت نڈھال ہوگئی ، اور میں منہ لٹکا کر واپس ہوگیا۔
دن پر دن نہیں ، برس پر برس گذر گئے ، دل کے کسی گوشے میں جو تمنا دبکی ، سہمی پڑی تھی، اسے کبھی یارا نہ ہوا کہ سرا ٹھاتی ، وہ دبی ہوئی تمنا تھی مگر خام نہ تھی ، وہ ایک ہلکی سی آرزو تھی مگر ناتمام نہ تھی، البتہ ایک کشمکش میں پھنسی ہوئی تمنا اور حیرت میں ڈوبی ہوئی آرزو تھی، سمجھ میں نہیں آتا اسے کس طرح تعبیر کروں ؟
شعبان ۱۴۰۸ھ کی کوئی صبح تھی ، ہوائی جہاز سے فارم بھرنے کی تاریخ گذر چکی تھی ، لیکن پانی کے جہاز کا اعلان اب ہوا تھا ، میرے ایک اور دوست کہ وہ بھی بڑھاپے کی