مدرسہ ریاض العلومگورینی… جہاں میں مدرس تھا … آئے ، اور ایک سفر کا پروگرام لے کر آئے ، گورینی سے الہ آباد حضرت مولانا محمداحمد صاحب پرتاب گڈھی علیہ الرحمہ کی خدمت میں ، پھر وہاں سے ہتھورا حضرت مولانا سیّد صدیق احمد صاحب کی بارگاہ میں ، اوروہاں سے وہ لوگ بمبئی چلے جائیں گے ، میں نے باندہ تک کی حامی بھرلی ۔ یہ بزرگانِ دین ، ان کے انفاس واوقات غنیمت ہیں ، جتنی دیر ان کی معیت وصحبت میں وقت گذرجائے وہی حاصل زندگی ہے ، پھر دونوں دوستوں میں نہ جانے کیا کچھڑی پکی کہ مجھے اطلاع سنائی گئی کہ آپ کو بھی بمبئی چلنا ہے ، مجھے دونوں کی دلداری منظور تھی ، بمبئی گیا اور دوروز ٹھہر کر واپس آگیا، مگر ع
یک لحظہ غافل بودم وصد سالہ راہم دور شد
واپسی پر اطلاع ملی کہ میرے احباب نے وقت کی تنگی کے باعث فارم بھردئے اور اب وقت باقی نہیں رہا ، نہ پانی کے جہاز کا اور نہ ہوائی جہاز کا۔
ہائے رے قسمت! پہلے بھرابھرایا فارم واپس کردیا گیا، اس سال اس کی نوبت ہی نہیں آئی ، ہاتھ مل کر اور دل پکڑ کر رہ گیا ، جو گذرنی تھی وہ تو خیر گذر ہی گئی ، ذرا ہوش بجا ہوئے ، تو ایک طرح کی خوشی دل میں محسوس ہوئی ، اس خیال سے کہ میرا فارم دوستوں کے فارم میں شامل نہیں ہوا ہے ، اس لئے امید ہے کہ ان کے حج کی قبولیت کا پروانہ آہی جائے گا ، چنانچہ یہی ہوا ، فارم منظور ہوکر آگئے ۔
مجھ پر حج ہی کہاں فرض ہے ؟… اخراجات کا انتظام کیونکر ہوتا… اچھا ہوا ایک بوجھ سے بچ گیا، میں اتنا عاصی اور گنہگار! اس دیارِ پاک کا حوصلہ ہی کیوں کیا؟ اچھا ہوا ایک طمانچہ لگ گیا …… اب ہمت نہ کرنا… آخر مدرسہ کا اور طالب علموں کا نقصان ہوتا… دوماہ کا ناغہ ہوتا ، اسباق چھوٹتے… اب اسباق کا نقصان نہیں ہوگا وغیرہ…… یہ اور اس طرح کے بہت سے مذبوحی خیالات جن میں ، میں زیر وزبر ہوتا رہا ، اسی پیچ وتاب میں ایک خط بھی حاجی عبد الرحمن صاحب کے نام لکھ ڈالا۔ اسے بھی ملاحظہ کرنا چاہئے!