جہاں پہلی وحی نازل ہوئی تھی ، مولانا ، اور ان کے والدین تو پہاڑ کے دامن میں ہی ٹھہر گئے۔ غار پہاڑ کی چوٹی پر ہے ، اور اس کی چڑھائی بالکل کھڑی اور دشوار ہے ، مولانا عزیز الرحمن صاحب کچھ دور چڑھ کر واپس آگئے ، میں اور بلال بھائی تو چوٹی پر چڑھ گئے،ایک گھنٹہ کے قریب وقت لگا، کہیں کہیں تو دونوں ہاتھ بھی زمین پر لگانا پڑتا تھا ، غارتک ہم لوگ پہونچ گئے ، اور دو رکعت نماز ادا کی ،باوجود دشوارگزار جگہ ہونے کے یہاں بھی بہت بھیڑ تھی ، میں نے ایک بوڑھے مرد اور عورت کو دیکھا جو انتہائی مشقت کے ساتھ چڑھ رہے تھے اور بری طرح ہانپ رہے تھے ، میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو اتنی مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت تھی ، کہنے لگے کہ بس شوق اور عقیدت ہے ، چڑھتے وقت صبح کا وقت تھا ، اس لئے زیادہ احساس نہیں ہوا، مگر واپسی میں سورج قدرے بلند ہوچکا تھا ، پیاس کی وجہ سے حلق میں کانٹے پڑرہے تھے ، میں نے احتیاطاً پانی کی بوتل لے لی تھی ، وہ بہت کام آئی ۔ اس کے بعد غار ثور جانے کا ارادہ تھا ، مگر بعض وجوہات کی بنا پر ارادہ فسخ کرنا پڑا۔ اس لئے ا س کی زیارت نہیں ہوسکی۔
حج کے بعد ایک دن قاری نسیم الحق صاحب معروفی کے ساتھ ان کی قیام گاہ پر گئے، معلوم ہوا کہ یہیں حضرت مولانا احمد علی صاحب آسامی کا قیام بھی ہے ، یہ شیخ الاسلام حضرت مولاناسیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ کے خلیفہ ہیں ، بہت ضعیف ہوچکے ہیں ، ان سے ملاقات کی ، اور ان کی دعائیں حاصل کیں ۔ یہ حضرت مولانا عبد الواحد صاحب مدظلہٗ کے درسی ساتھیوں میں ہیں ۔ ایک روز مولانا کے ساتھ حرم جارہا تھا تو الہ آباد کے مشہور شاعر کامل چائلی صاحب سے ملاقات ہوئی ، انھوں نے اپنی قیام گاہ پر بلایا ، ایک نعت اور ایک غزل سنائی ، حضرت مولانا محمد احمد صاحب کے لوگوں میں سے ہیں ۔
ایک روز مولانا محمد نعمان صاحب معروفی کے ہمراہ جامعہ ام القریٰ گیا ، وہاں کی لائبریری اور دوسرے شعبے دیکھے ، اور یہیں جامعہ کے شعبہ جغرافیہ کے استاذ دکتور نواب معراج مرزا سے ملاقات ہوئی ، ان کی والدہ غالباً لکھنؤ کی رہنے والی ہیں ، اس کے اثر سے اردو اچھی خاصی سمجھ اور بول لیتے ہیں ، مگر خالص عربی لب ولہجہ میں ، ہمیشہ لیکن کی جگہ لاکن