وجہ سے جو افراتفری ہوئی تو لوگوں سے حج میں غلطیاں بہت ہوئیں ، اس لئے لوگ بہت زیادہ مسائل پوچھنے آتے تھے ، مولانا ہر ایک کو تسلی بخش جواب دیتے ، تلافی کی صورتیں بتاتے، ہم لوگوں کی قیام گاہ جیساکہ معلوم ہوچکا ہے ،حرم شریف سے بہت دور تھی ، اس لئے بھی مولانا کے لئے آمد ورفت مشکل تھی ، البتہ جب حج کے بعد بھیڑ ختم ہوئی تو قاری خلیق اﷲ صاحب بستوی کے مکان پر دن کے اوقات میں زیادہ تر قیام رہتا تھا ، رات میں اپنی قیام گاہ پر جاتے تھے ، قاری صاحب سے حضرت مولانا کی پرانی شناسائی ہے ، بالکل اسم بامسمیٰ ہیں ، نہایت خلیق وملنسار! بڑے ہنس مکھ ! یہ ایک بلڈنگ ہے جو قاری صاحب کی نگرانی میں ہے ، یہ حرم شریف کے باب الندوہ پر واقع ہے ، اور حرم شریف سے بالکل متصل ہے ، بسااوقات ایسا بھی ہواکہ حرم میں اقامت شروع ہونے کے بعد کمرے سے نکلے اور جماعت میں شریک ہوگئے ۔ یہاں ہندوپاک کے اکثر علماء ومشائخ تشریف لاتے ہیں ، یہیں پہلی مرتبہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نوراﷲ مرقدہٗ سے شرف نیاز حاصل ہوا، بڑی شفقت وعنایت کا معاملہ فرمایا۔ایک روز قاری صاحب نے ایک پاکستانی عالم مولانا سعید احمد عنایت اﷲ کی تصنیف ’’حجاز معلم عربی ‘‘ عنایت فرمائی ، جو تین حصوں پر مشتمل ہے،یہ کتاب نحو وصرف کے اکثر مسائل کو محیط ہے، اور بیحد جامع کتاب ہے۔ بعد میں تدریس کے وقت اس سے بڑی مدد اور رہنمائی ملی۔ تینوں حصوں کا طرز یہ ہے کہ نصف حصہ اوّل اردو میں ہے ، پھر اسی کو عربی میں بیان کیا گیا ، تاکہ پڑھنے والا جو کچھ قواعد جان چکا ہے ، اس کے مطابق عربی زبان کو صحیح اعراب کے ساتھ پڑھ سکے۔
ایک روز مولانا نے فرمایا کہ کل بڑا عمرہ کرنا ہے ، اس کی تفصیل یہ بتائی کہ جعرانہ سے احرام باندھنا ہے ، یہ جگہ مکہ مکرمہ سے ۲۵؍ کلومیٹر مشرق میں طائف کے راستہ پر ہے ، رسول اﷲ ا نے غزوۂ طائف سے واپسی کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا ، دوسرے دن ٹیکسی کرکے ہم لوگ جعرانہ پہونچے ، اور وہاں سے احرام باندھ کر آئے ۔
ایک روز مولانا ہم لوگوں کو غارحراء کی زیارت کیلئے لے گئے ، یہ وہی پہاڑ ہے