کے ساتھ کئے ، ہم دونوں صبح بس سے دوریال دے کر تنعیم مسجد عائشہ پہونچ جاتے ، اور وہاں سے احرام باندھ کر حرم آجاتے، اور طواف وسعی کے بعد سر منڈالیتے ، اس کے علاوہ تنہا بھی اتنے ہی عمرے کئے ، ہر ایک روز کے بعد عمرہ کرتا تھا ،مگر ایک حسرت دل ہی دل میں رہ گئی ، وہ تھی حجر اسود کو چھونے اوربوسہ دینے کی حسرت وتمنا!ہزار کوششوں کے باوجود وہاں تک پہونچنا ممکن نہ ہوا۔ پہلے ہی دن مولانا نے یہ بات بڑے اہتمام اور تاکید کے ساتھ فرمادی تھی کہ دیکھو حجر اسود کو بوسہ دینا ایک فعل مسنون ہے ، اور کسی مسلمان کو تکلیف اور ایذا پہونچانا حرام ہے ، اس لئے ایسا نہ ہوکہ ایک فعل مسنون کے لئے کسی فعل حرام کا ارتکاب کرنا پڑے،بات بڑے اہتمام اور تاکید سے کہی گئی تھی ، اس لئے دل پر نقش ہوگئی اور ہمیشہ پیش نظر رہی، میں نے اپنے طورپر پوری کوشش کرڈالی کہ بسہولت کسی طرح حجراسود تک ایک ہی مرتبہ سہی پہونچ جاؤں ، مگر وہاں اس قدر ہجوم ہوتا تھا کہ بغیر دھکا دئے، ایک دوسرے کے اوپر گرے ، پہونچنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آئی، رات ودن کے ہر حصہ میں جاکر دیکھ لیا۔
ایک دن ایک صاحب نے بتایا کہ امام صاحب نماز پڑھانے کے بعد حجر اسودکا بوسہ لیتے ہیں ، میں نے اسی وقت عزم کرلیا کہ میں بھی امام صاحب کے قریب ہی نماز پڑھوں گااور ان کے ساتھ جاکر تقبیل کی سعادت حاصل کروں گا، امام صاحب عموماً مقام ابراہیم اور بیت اﷲ کے دروازے کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں ، ظہر کی نماز سے پہلے طواف کررہا تھا ، جب ظہر کی اقامت شروع ہوئی تو کوشش کرکے دروازے کے قریب کھڑا ہوا، نماز ختم ہونے کے بعد امام صاحب نے سلام پھیرا، ابھی انھوں نے صرف ایک ہی جانب السلام علیکم کہا،اور وہ بھی پورا نہیں ہواتھا کہ حفاظتی حصار کو توڑتے ہوئے پچاسوں آدمی دوڑ کر امام کے آگے آکر حجر اسود کے قریب پہونچ گئے، یہ دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا کہ کس قدر جہالت کی بات ہے کہ نماز تو فرض ہے، ایک فعل مسنون کے لئے ایک فرض کو اس طرح برباد کرلیا۔ اس کے بعد میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا ، پھر کوشش ہی نہیں کی۔
مولانا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے زیادہ تر قیام گاہ پر ہی رہتے تھے ، آگ لگنے کی