کہیں ، سب کے لئے دل وجان سے دعا ء کرتا ہوں
والسلام
محتاجِ دعاء ،آپ کا بیٹا
ضیاء الحق خیرآبادی مکہ مکرمہ
۲۵؍ ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ
٭٭٭٭٭
حرم کی نمازوں میں ایک خاص کیف حاصل ہوتا تھا ، بالخصوص جہری نمازوں میں ! اہل زبان ائمہ جب کیف وسوز کے ساتھ تلاوت کرتے تو ایسا محسوس ہوتا تھا پوری کائنات وجد کررہی ہے۔ حج سے پہلے میں نے غور کیا توجہری نمازوں میں اکثر انھیں آیات کی تلاوت کرتے تھے جن میں حج سے متعلق احکام ہوتے تھے ، مثلاً وأتموا الحج والعمرۃ ﷲ، الحج أشھر معلومات،وأذن فی الناس بالحج وغیرہ ، اس وقت کے ائمہ میں شیخ سعود الشریم کی تلاوت میں غضب کا سوزاور اثر تھا ، حج سے پہلے کاواقعہ ہے، ایک روزعشاء کی نماز یہی شریم صاحب پڑھارہے تھے ، حج کے احکام سے متعلق ساتویں پارے کا دوسرا رکوع : یاایھاالذین آمنوا لاتقتلواالصید وأنتم حرم، پڑھنا شروع کیا۔جوں جوں آگے بڑھتے گئے، آواز بھرا تی گئی ، یہاں تک جب جعل اﷲ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس پڑھاتوبالکل بے قابو ہوگئے اور ہچکیاں بندھ گئیں ، ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے پورا حرم سسک پڑاہو، جوآیت کا مفہوم سمجھ رہے تھے ، اور جو نہیں سمجھ رہے تھے سب کی یکساں حالت تھی ، کچھ دیر تک پورے حرم پر یہی کیفیت طاری رہی۔مجھ جیسے قسی القلب پر بھی شدید گریہ طاری تھا ، نماز کے بعد حضرت مولانا کے ارد گرد لوگ جمع ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ امام صاحب نے کیا پڑھا تھا کہ اس قدر ان پر گریہ طاری ہوگیا تھا ، تو مولانا نے اس رکوع کی مختصر سی تشریح کی،ہلکا پھلکا ایک درس قرآن ہوگیا۔
حج کے بعد نفلی طواف اور عمروں کا سلسلہ شروع ہوا، چار پانچ عمرے تو بلال بھائی