مشفق سلّمہ ، ہم چاروں حافظ ریاض احمد صاحب کی سربراہی میں صبح ہی پیدل منیٰ روانہ ہوگئے ، مولانا اپنے والدین کی وجہ سے معلم کی گاڑی سے آنے والے تھے ، لیکن آگ لگنے کی وجہ یہ لوگ منیٰ نہ جاسکے اور اسی دن رات میں سیدھے مکہ مکرمہ سے عرفات پہونچادئے گئے ، ہم لوگ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اپنے خیمہ میں پہونچے ، ابھی پہونچ کر قاعدے سے دم بھی نہ لینے پائے تھے کہ آگ کے شعلے بلند ہونے شروع ہوئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری فضا تاریک ہوگئی، ایسی خطرناک دہشت ناک آتشزدگی کہ پناہ بخدا! ایسا کثیف اور سیاہ دھواں اٹھ رہا تھا کہ الامان والحفیظ ! ہمارے خیمے کے بعد ایک سڑک تھی ، اس کے دوسری جانب جو خیمہ تھا وہیں سے آگ شروع ہوئی ، اور چشم زدن میں ہزاروں خیموں کو زد میں لے لیا ، اس وقت ہوا بہت تیز اور انتہائی گرم تھی ،گیس سلنڈر پٹاخوں کی طرح پھوٹ رہے تھے ، اس کے اجزا ہوا میں اڑتے اور جس خیمہ پر گرتے اسے چند لمحوں میں جلا کر خاک کردیتے ، ہماری آنکھوں کے سامنے خیمے اور اس میں حجاج جل رہے تھے ، موت کو اتنے قریب سے کبھی نہ دیکھا تھا ، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں ، اچانک پلائی کے ان ایمر جنسی دروازوں پر نظر پڑی جو خیمے کے پچھلے حصے میں جگہ جگہ لگے ہوئے تھے ، فوراً ایک دروازہ کو توڑ کر خیمہ سے باہر نکل گئے اور مزدلفہ کے حدود میں پناہ لی ، باری تعالیٰ نے حفاظت فرمائی اور کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ منیٰ کی تاریخ میں اس سے ہولناک آگ کبھی نہ لگی تھی ، بعد میں معلوم ہوا ہزارکے قریب حجاج شہید ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوئے ۔ إناﷲ وإنا إلیہ راجعون
دوپہر کو یہ آگ لگی تھی ، ہم لوگوں نے ظہر اور عصر کی نماز مزدلفہ میں پڑھی اور عصر کے بعد منیٰ واپس آئے ، اس وقت کا منظر دیکھ کر کلیجہ حلق کو آگیا ، ایسی افراتفری اور کسمپرسی کا عالم خدا کرے پھر کبھی نہ ہو ، کسی کا بچہ غائب ، کسی کی بیوی گم ، کسی کے والدین لاپتہ، غرض ایک قیامت برپا تھی ، اسی کے مشابہ منظر تھا جس کی خبر قرآن نے ان الفاظ میں دی ہے : یوم یفر المرء من أخیہ وأمہ وأبیہ صاحبتہ وبنیہ ۔