اسلام وتوحید کا وہ لاہوتی نغمہ گونجا ، جس کی گونج سارے عالم میں سنائی دی ، دعوت اسلام کا آغاز اسی پاک سرزمین سے ہوا، جس کے متبعین وپیروکاروں نے دنیا کے ایک بڑے حصے کو ایمان ویقین اور عدل وانصاف سے بھردیا ، پہلی وحی اسی پاک سرزمین پر اتری۔ غرض انوار وبرکات کی اس سرزمین پر پہونچ کر دل کی کیا کیفیت ہوئی ، اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ایک بجے شب مولانا کے ہمراہ مسجد حرام میں حاضر ہوا، بیت اﷲ کو دیکھ کر مارے ہیبت وجلال کے دل لرز اٹھا، یہ گنہ گار آنکھیں دیر تک اس کے دیدار میں محو رہیں ، پھر دعاء کے لئے ہاتھ اٹھ گئے ۔ بیت اﷲ کے گرد پروانوں کی اس قدر بھیڑ تھی کہ لوگ ٹوٹے پڑرہے تھے ۔ ہم لوگوں نے عقیدت واشتیاق کے عالم میں طواف شروع کیا ، طواف کے بعد ملتزم تک پہونچنے کی بہت کوشش کی ، مگر ہجوم وازدحام کی وجہ سے ایک نہ چلی ، اور باوجود کوشش کے وہاں تک رسائی نہ ہوسکی ، کل خدا کے فضل وکرم سے یہ سعادت میسر آئی ، وہاں پہونچ کر خوب خوب دعائیں کیں ، باری تعالیٰ قبول فرمائے ، ویسے اکابر واہل اﷲ اپنا تجربہ یہی بتاتے ہیں کہ ملتزم کی دعاء انشاء اﷲ ضرورقبول ہوگی ، خدا کرے ایسا ہی ہو۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طواف وسعی سے فارغ ہوئے اور احرام اتارکر حلال ہوگئے۔ آج سعودی جنتری کے حساب سے ذی الحجہ کی پہلی تاریخ تھی، ابھی حج میں نو دن باقی تھے ، اس عرصہ میں نفلی طواف کا سلسلہ چلتا رہا ، کبھی کبھی مطاف میں جاکر بیٹھ جاتا تھا اور کعبۃ اﷲ کو دیکھتا رہتا، ایک آدھ ہفتہ تک تو مجھے یقین ہی نہیں آتا تھا کہ میں مکۃ المکرمہ میں ہوں اور کعبۃ اﷲ میرے سامنے ہے ، جب اپنی سیہ کاری اور اس پاک گھر کی عظمت وبزرگی کو سوچتا تو عجیب سا لگتا تھا کہ کہاں میں اور کہاں یہ سرزمین مقدس ؟ مگر جب خدا ئے پاک کی عطا ء وبخشش اور شانِ کریمی پر نظر جاتی تو یہ حیرت واستعجاب کم ہوجاتا ، خیر ایک چیز جو واقعہ بن چکی ہو اسے خواب کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔
۸؍ ذی الحجہ کو منیٰ کے لئے روانگی تھی ، میں ، بلال بھائی اور مولانا کے ایک دوست حافظ ریاض احمد صاحب جو سعودی عرب ہی میں ملازمت کرتے ہیں ، اور ان کا بھتیجا محمد