اور مناجات میں مشغول ہوگئے ، صبح صادق کے بعد فجر کی نماز ادا کی ،اور یہی وقوف مزدلفہ کا وقت ہے ، اس سے پہلے ہرگز ہرگز مزدلفہ سے نہیں نکلنا چاہئے ، ہم لوگ طلوع آفتاب کے وقت منیٰ کے لئے پیدل روانہ ہوگئے ، ہم لوگوں کا خیمہ بالکل مزدلفہ کی سرحد پر تھا اس کے باوجود بے پناہ ہجوم کی وجہ سے ایک گھنٹہ لگا ،اس قدر بھیڑ تھی کہ پیدل چلنا دشوار ہورہا تھا ، تو سواریوں کا کیا کہنا، چیونٹیوں کی رفتار سے چل رہی تھیں ، منیٰ پہونچ کر اپنے خیمے میں چلے گئے ، اور مولانا کا انتظار کرنے لگے ، اسی میں دوپہر کاوقت ہوگیا ، سوچاکہ کھانے فارغ ہولیں ، کھانا کھاکر ابھی ہاتھ دھل رہے تھے کہ مولانا کی آواز سنائی ، مولاناکی آواز سن کر جس قدر مسرت ہوئی اس کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا ، مولانا میرے ایسے مربی ومحسن ہیں کہ ان کے بارِ احسان سے کبھی میری گردن نہیں اٹھ سکتی ، باری تعالیٰ انھیں ہر طرح کے شرور وفتن وابتلاء ومحن سے محفوظ رکھے اور ان کا سایہ شفقت تادیر ہمارے سروں پر باقی رکھے اور ان کے فیض کو عام وتام فرمائے ، آمین یارب العالمین اور مرنے کے بعد جنت میں بھی ان کی معیت ومشایعت نصیب فرمائے ۔ عالم اسباب میں میرا یہ حج جس ذات کا مرہون منت ہے وہ حضرت مولانامدظلہٗ ہی کی ذات گرامی قدر ہے، ورنہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔‘‘
آج جمرۂ عقبہ کی رمی کرنی ہے،مولاناکے آنے کے بعد پروگرام بناکہ عصر کی نماز کے بعد رمی کی جائے ، چنانچہ عصر بعد جمرات پر پہونچے ، تو بالکل خالی پایا،ہم لوگوں کے علاوہ ایک متنفس بھی وہاں موجود نہ تھا ، نہایت سہولت کے ساتھ بالکل قریب سے سات کنکریاں ماریں ، اسی کے ساتھ تلبیہ موقوف ہوگیا ۔ خیمہ میں آتے آتے شام ہوگئی ، ابھی حج کے تین افعال باقی تھے ،قربانی کرنا، حلق اورطواف زیارت ! پروگرام یہ بناکہ دوسرے دن جمعہ ہے ، صبح حافظ ریاض احمد صاحب کے ساتھ مذبح جاکر سب کی قربانی کر آئیں ، چنانچہ صبح جاکر بکرے خریدے گئے اور ہم دونوں نے اپنے ہاتھوں سے سب کی قربانی کی ، اور سات بجے طواف زیارت کے لئے مکہ مکرمہ چلے گئے ، وہاں جاکر سر مونڈاکر احرام اتاردیا ، اور نہادھوکر سلے ہوئے کپڑے پہن لئے ، میں نے جمعہ سے پہلے طواف زیارت کرلیا ، جمعہ کی نماز کے