حج ہی فوت ہوجائے گا ۔ فجر کی نماز پڑھ کر عرفات روانہ ہوگئے ، بس والے نے جبل رحمت کے پاس اتاردیا ، اس کے بعد ہم لوگ اپنا خیمہ تلاش کرتے رہے ، لیکن ناکام رہے ، اس انسانی جنگل میں کسی کی تلاش میں کامیاب ہوجانا بہت مشکل ہے ، منیٰ کی آتشزدگی کی وجہ سے طبیعت پریشان تھی کہ معلوم نہیں مولانا وغیرہ کس حال میں ہیں ؟ بالآخر تھک ہارکر ایک پاکستانی خیمے میں پناہ لی ،جولوگ اس میں تھے بڑے شریف لوگ تھے ، منیٰ کے سانحے کی وجہ سے خیمہ کا بہت سا حصہ خالی تھا ،ہم لوگ اس میں آرام سے رہے ۔ تھوڑی دیر آرام کیا ، پھر وضو کرکے تلاوت وذکر میں مشغول ہوگئے ، منیٰ کی طرح یہاں بھی حکومت نے استنجا خانے وغسل خانے کا بہت معقول انتظام کیا ہے ، زوال کے وقت غسل کرکے ظہر کی نماز اپنے خیمے میں پڑھی ، یہی وقوف کا وقت ہے ، اور تسبیح وتحمید میں مصروف ہوگئے ، میں بہت دیر تک کھڑے ہوکر دعائیں کرتا رہا ، بے ساختہ آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، دل میں ایک عجیب سی تڑپ تھی ، اپنے ایک ایک گناہ یاد آتے رہے ، خدا کے حضور اس کی معافی کے لئے روتا گڑگڑاتا رہا ، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کیا ۔ باری تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے ان دعاؤں کو قبول فرمائے جو ان مقدس وبابرکت ساعتوں میں کی گئیں ۔ اپنے والدین ، بزرگوں ، اساتذہ ، مشائخ ، دوست احباب، اعزاواقربا ، بھائی بہنوں اور اہل خاندان سب کے لئے خوب خوب دعائیں کیں ۔ تقبل اﷲ دعواتنا۔
غروب آفتاب کے بعد عرفات سے نکلے ، الحمد ﷲ حج کا یہ رکن اعظم بسہولت ادا ہوگیا، فللّٰہ الحمد والمنۃ، آج کے دن مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ عشاء کے وقت میں پڑھنے کا حکم ہے ، لہٰذا مغرب پڑھے بغیر عرفات سے مزدلفہ کیلئے روانہ ہوگئے ، یہاں سے مزدلفہ کی مسافت چھ کلومیٹر ہے ، فیصلہ کیا گیا ہے کہ پیدل چلنا چاہئے ، چنانچہ پیدل چل پڑے ، اور ۲؍ گھنٹے میں مزدلفہ پہونچ آئے ۔‘‘
مزدلفہ کی تفصیلات کے لئے ۱۰؍ ذی الحجہ کی ڈائری کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ مزدلفہ پہونچنے کے بعد تھوڑا آرام کرنے کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی گئی ، اس کے بعد ہم لوگ سو گئے، ۳؍ بجے بیدار ہوکر تہجد و وتر کی نماز ادا کی اور تلاوت وذکر