اورخوفناک آتشزدگی کبھی دیکھی نہ تھی ، ہمارے سامنے دھڑادھڑ خیمے جل رہے تھے ، اور اس میں حجاج جاں بحق ہورہے تھے ،محسوس ہورہا تھا کہ موت ہم سے چند قدم کے فاصلے پر ہے ، اس وقت دل کا حال نہ پوچھو ، زبان حال؛ وقال دونوں سے دعائیں اور اﷲ اکبر کی صدائیں نکل رہی تھیں ، کسی طرح ہم لو گ خیمے کے عقب میں لگے ایمر جنسی دروازوں کو توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے ، چونکہ ہم لوگوں کے پاس کوئی سامان نہ تھا اس لئے نقل وحرکت میں بڑی سہولت رہی ، ہم لوگوں نے مزدلفہ کے حدود میں ایک پل (کبری) کے نیچے پناہ لی ، تھوڑی ہی دیر میں سعودی حکومت کا شہری دفاع حرکت میں آگیا ، متعدد ہیلی کاپٹر اور سیکڑوں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے کی کوشش میں مسلسل مصروف رہیں ، مگر یہ آگ تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ، معلوم نہیں آگ ہی تھی یا قہر خداوندی جو ہمارے شامت اعمال کی بنا پر نازل ہوا، بہر حال تین گھنٹے کے بعد آگ بجھی ، وہ بھی اس لئے کہ اس حلقہ میں اب جلنے کیلئے کچھ بچا ہی نہیں تھا ۔ ہم لوگ عصر کی نماز پڑھ کر منیٰ آگئے ، ہم لوگوں کا خیمہ محفوظ تھا ، لیکن آس پاس کے تقریباً سبھی خیمے جل کر راکھ ہوگئے تھے ۔‘‘
ہم لوگ بہت خوش تھے کہ حج میں حضرت مولانا کی معیت وہمراہی حاصل ہے ، حج کے مراحل میں آپ کی رہنمائی حاصل رہے گی ، تو حج کا صحیح لطف حاصل ہوگا ، مگر قضاوقدر کے فیصلے کچھ اور ہی تھے ، شاید ہم لوگوں نے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی حضرت مولانا پر انحصار کرلیا تھا ، اس لئے حج کے پہلے ہی مرحلے میں مولانا سے جدائی ہوگئی ، جیسی ہی آگ لگی حکومت نے منیٰ کے راستے بند کردئے اورجو حجاج مکہ میں رہ گئے تھے ان کو براہ راست عرفات پہونچادیا گیا ، ہم لوگ بھی پریشان اور حضرت مولانا ہم سے زیادہ پریشان ، اس لئے کہ ہم لوگ تو منیٰ پہونچ چکے تھے ، ہماری خیر وعافیت کے لئے وہ مسلسل دعا گو رہے ، شاید اسی کی برکت تھی کہ ہم لوگ پوری طرح خیر وعافیت سے رہے ۔
۹؍ ذی الحجہ ( یوم عرفہ ) کی ڈائری کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ آج وقوف عرفہ کا دن ہے ، یہ حج کا رکن اعظم ہے ، اگر خدا نخواستہ یہ فوت ہوگیا تو