پھر سناٹا چھا گیا۔ پھر مسودہ پڑا رہا ، بعض دوستوں نے مطالعہ کے لئے مانگا، ان کے پاس گیا ، پھر میرے پاس آیا، پھر وہ گم ہوگیا مگر نہ جانے کیسے مل گیا، غرض حوادث ِ زمانہ کے الٹ پھیر اور ہاتھوں کے تنقل وتبدل کے باوجود اُعجوبہ ہی ہے کہ وہ محفوظ رہ گیا ۔ حضرت قاری ولی اﷲ صاحب سے اس کا ذکر آیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس کی کتابت اپنی نگرانی میں کرالو، میں چھپوادوں گا ، میں نے نظر ثانی کا ارادہ کیا اور دوسال تک وہ ارادہ شرمندۂ عمل نہیں ہوسکا ، پھر گھر بیٹھے ایک کاتب عزیزم مولوی قمر الدین معروفی سلّمہ مل گئے ، انھوں نے بالکل خلافِ توقع اور کاتبوں کی عادتِ قدیمہ کے قطعاً برعکس بہت جلد اور بہت عمدہ کتابت کردی ، جہاں تک لکھ چکا تھا ، دوتین صفحے اور اس میں اضافہ کرکے میں نے کتاب مکمل کردی۔
حج کی سعادت میسر آئی ۱۴۰۹ھ میں ۔ یہ تحریر اختتام کے قریب پہونچی، ۱۴۱۰ھ میں ۔اس کی تکمیل اور کتابت کی نوبت آئی ۱۴۱۶ھ میں ۔ نہ جانے چھپتے چھپاتے کتنے دن اور بیتیں گے ۔ اس طرح یہ ایک باسی اور روکھی پھیکی تحریر ہے ، جو قارئین کی ضیافتِ طبع کے لئے پیش کرنے کے لائق ہرگز نہیں ، مگر شاید قارئین سے زیادہ اپنی یاد کو باقی رکھنے کا بہانہ ہے ورنہ اس داستان سرائی کا کچھ حاصل نہیں ۔ اقبال مرحوم نے شاہین کے متعلق کہا ہے ؎
جھپٹنا پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
اسی طرح میری یہ کدوکاوش میرے حق میں یادوں کی محفل کے گرم رکھنے کا اک بہانہ ہے ، لیکن قارئین کے حق میں نہ جانے کیا ہے ؟ سفرنامہ ہے؟ آپ بیتی ہے ؟ ذکرِ احباب ہے ؟ ہنگامہ خیزی ٔ دل کی داستان ہے ؟ بداعمالیوں کی رپورٹ ہے ؟ کیا ہے ؟ میں کچھ نہیں بتاسکتا ، میرے خیال میں ان میں سے کچھ نہیں ہے ، اور جو کچھ ہے اس کے لئے اُردو میں ’’مہمل ‘‘ کے لفظ سے زیادہ بامعنی کوئی لفظ نہیں ہے۔
پس اگر اس مہمل تحریر کو پڑھنے سے طبیعت انکار کرے ، تو بجا ہے ، سوبار بجا ہے ، اور اگر اس کے باوجود آپ نے اس کو پڑھ لیا تو آپ کے لئے صبر ایوب کی سند ہے۔ لکھنے والا لکھ کر شرمندہ ہے ، وہ آپ سے داد کا طالب کیا ہوتا؟ ہاں دعا کا طالب ضرور ہے ، اوروہ پسندو