گا ، دل کے داغوں میں کمی کیا محسوس ہوتی وہ اور چمک اٹھے ، فرطِ ندامت سے دل کو تاب نہ تھی کہ وہ گردن اٹھاتا ، ایسی صورتِ حال میں سفرنامہ کیا لکھا جاتا، پھر سفرنامہ وہ لکھے جس نے کچھ دیکھا ہو، جسے کچھ معلومات ہوں ، جس کا مشاہدہ قوی ہو ، جس کا اِدراک صحیح ہو، اور اس کا قلم مشاہدات کی صحیح طور سے اور ہو بہو تصویر کشی پر قادر بھی ہو ، اور یہاں حال یہ تھا کہ
جو پڑھا لکھا تھا نیازؔ نے اسے صاف دل سے بھلادیا
جو شخص ہر جگہ اور ہر مقام پر اپنے دل سے الجھتا اور جھگڑتا رہا ، وہ سفرنامہ کیا لکھے ، اسے باہر کی چیزیں نظر ہی کب آئیں ؟ اور اپنے باطن میں جھانکتا تو خطرناک قسم کے کیڑوں مکوڑوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیتا ، تو بھلا جو نہیں دیکھا ، اسے کیونکر بتائے ، اور جو دیکھا ہے وہ اس لائق کب ہے کہ اسے بیان کرے؟
پس میں حج سے واپس آیا ، تو سرے سے لکھنے لکھا نے کا وسوسہ بھی نہیں پیدا ہوا ، مگر بعض دوستوں نے باتوں ہی باتوں میں کبھی اس بات کا بھی ذکر کردیا کہ کچھ لکھنا چاہئے ۔ میں اس کا کیا جواب دیتا ، خاموش رہ جاتا ، واپسی کے تقریباً دوماہ بعد کسی ضرورت سے مبارک پورجاناہوا ، وہاں میرے ایک پرانے کرم فرما مولانا عبد الرؤف صاحب نے نہ جانے کس ساعت میں اور کس سُر میں فرمائش کی کہ اس کا خیال دل میں اتر گیا ، اور اب میں ارادہ کرکے نکالنا چاہتا ہوں ، تو بھی نہیں نکلتا ، بہت ٹالا ، اپنی نالائقی کا استحضار کیا ، اپنی بے علمی یاددلائی ، کیا لکھوں ؟ اس سلسلے میں اپنی بے بسی کو میں سامنے لایا ، بے ربط ، اوٹ پٹانگ تحریر پڑھ کر لوگ ہنسیں گے ، رُسوائی ہوگی ، مستقبل کے اس حال کو پیش نظر کیا ، مگر دل تھا کہ مصر رہا کہ لکھو ، چھپوانے کی کیا ضرورت؟ لکھ کر رکھ لو ، حافظہ دغا دے گا تو کاغذی نقوش حافظہ کی قائم مقامی کریں گے ، اس اصرار کے ہاتھوں میں مجبور ہوا، اور لکھنے کا آغاز کردیا ، اور پھرلکھتا چلا گیا ۔ لکھنے کے دوران نہ ربط کا خیال رہا ، نہ عنوانات کا دھیان رہا ، نہ تاریخ کا اہتمام رہا۔ بس جو کچھ بیتی تھی ، اسے الفاظ کے پیکر میں ڈھالتا چلا گیا ، یہاں تک کہ وہ ایک کتاب کی صورت اختیار کرگیا ۔ قیامِ مدینہ کے آخری حالات تک قلم پہونچاتھا کہ طبیعت رُک گئی ، اور