ہے۔
تیاری کے بعد معلم کے کارندے کا انتظار تھا کہ وہ آکر منیٰ اور عرفات کے خیموں کے نمبر کاکارڈ دیدے، گویا یہ کارڈ منیٰ اور عرفات کے خیموں کا پتہ اور اس میں داخلہ کا اجازت نامہ ہوتا ہے، ورنہ اس کے بغیر خیموں میں داخلہ کی اجازت نہیں ملتی ہے، لیکن رات دیر گئے تک نہ تو بس ہی آئی اور نہ معلم کا آدمی آیا ، ہم لوگ انتظار کرکے سوگئے ، ہم لوگوں نے نماز فجر سے ایک گھنٹہ قبل ہی غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر احرام باندھ لیا ، میں نے حرم شریف میں جاکر دورکعت نماز پڑھ کر حج کے احرام کی نیت کی اور تلبیہ پڑھتے ہوئے واپس آگیا ، فجر کی نماز قریبی مسجد میں ادا کی گئی ، اس لئے کہ کسی بھی وقت بس آسکتی تھی ، نماز کے بعد معلم کا کارندہ کارڈ لیکر آگیا، اور بتایا کہ دس بجے بس آئے گی ۔ ۸؍ ذی الحجہ کی ڈائری کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ منیٰ میں ۸؍ ذی الحجہ کی ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء اور ۹؍ کی فجر پڑھنا مسنون ہے ، اس لئے اگر دس بجے بھی جاتے تو ظہر سے پہلے وہاں پہونچ جاتے ، منیٰ ، مکہ مکرمہ سے چار کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ، بلال بھائی ، حافظ ریاض احمد صاحب اور ان کا بھتیجہ مشفق سلّمہ پیدل جانے کے لئے تیار تھے ، میں شروع سے کم ہمت اور کمزور واقع ہواہوں ، میں نے کہا کہ میں تو مولانا کے ہمراہ بس سے آؤں گا میرے اندر اتنا پیدل چلنے کی سکت نہیں ہے ، لیکن عین وقت پر خدائے تعالیٰ نے اس کمزور وناتواں کے اندر بھی ہمت وحوصلہ پیدا کردیا ، اور میں بھی ان لوگوں کے ہمراہ پیدل منیٰ روانہ ہوگیا ،۹؍ بجے ہم لوگ قیام گاہ سے روانہ ہوئے اور نہایت سہولت اور آرام کے ساتھ ساڑھے گیارہ بجے منیٰ پہونچ گئے ، حافظ ریاض احمد صاحب نے کارڈ پر بنے خیموں کے نقشوں کی مدد سے بآسانی ہم لوگوں کا خیمہ ڈھونڈ نکالا، ہمارا خیمہ (مکتب نمبر ۶۵) منیٰ کی بالکل آخری حد پر مزدلفہ سے متصل تھا ، وہیں نہایۃ منیٰ و بدایۃ مزدلفہ کا بورڈ لگا ہواتھا ، ہم لو گ اپنے خیمے میں پہونچ گئے ، ابھی دم ہی لے رہے تھے کہ شور ہواکہ آگ لگ گئی ہے ، فوراً ہم لوگ باہر نکلے ، دیکھا تو دھوؤں کا ایک گہرا سیاہ بادل نظر آیا، ایسی مہیب