پھیر کر انتشار پیدا کرتے ہیں ۔ پھر تو ہر نماز کے بعد یہ اعلان ہوتا تھا ، بلکہ کبھی کبھی تو ایک ہی نماز میں دودومرتبہ! میں نے پوری زندگی میں اتنی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی تھی جتنی مکہ مکرمہ ایک ماہ کے دورانِ قیام پڑھی ۔
نماز کے بعد اپنی قیام گاہ پر واپس آئے ، دو تین گھنٹے آرام کرکے میں پھر حرم میں آگیا ، معلوم ہوا کہ آج ذی الحجہ کی پہلی تاریخ ہے ، صبح کعبۃ اﷲ کو غسل دیا گیا ہے ، یہ عمل ہرسال ذی الحجہ کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے، پہلے معلوم نہ ہونے کی بناپر اس سے محرومی رہی ۔ اس کے بعد کامل ایک ہفتہ کا وقت تھا ، اس میں زیادہ تروقت طواف میں گزرتا تھا ،ابھی نوعمری کا دور تھا ،اس لئے کئی کئی طواف بآسانی کرلیتا تھا ، رات میں سونے کے علاوہ قیام گاہ پر جانے کی نوبت کم ہی آتی تھی ، پورا وقت حرم ہی میں گذرتا تھا ، تین تاریخ کو معلوم ہوا کہ حضرت مولانا عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم تشریف لائے ہیں ، حضرت کی شفقت اس سیہ کار پر بہت ہے ، ان کی خدمت میں ایک بار ضرور حاضری دیتا تھا ۔ہم لوگوں کے پہونچنے کے دوسرے دن حافظ ریاض احمد صاحب تشریف لائے ، یہ اعظم گڈھ کے قصبہ پھولپور کے ایک قریبی گاؤں چماواں کے رہنے والے ہیں ، سعودی عرب میں ریاض کے قریب بریدہ میں رہتے ہیں یہ حضرت مولانا کی معیت میں حج کرنے اور ان سے کچھ پڑھنے کی غرض سے آئے ، چنانچہ مولانا نے ان کو جلالین شریف اور مشکوٰۃ شریف شروع کرادی، میں بھی اگر موجود رہتا تو سبق میں بیٹھ جاتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھ روز گذر گئے ، ۷؍ ذی الحجہ کو ظہر کی نماز پڑھ کر حضرت مولانا عبد الواحد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں سے ہوکر قیام گاہ پر پہونچا تو لوگ منیٰ جانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے ، میں نے بھی اپنا سامان درست کیا ، احرام کی ایک چادر،سفری تکیہ ،قرآن شریف اور الحزب الاعظم ایک چھوٹے سے بیگ میں رکھ کر تیاری مکمل کی ۔ تمام عازمین حج کو اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ کم سے کم سامان لے کر منیٰ جائیں ، تاکہ اگر پیدل چلنا پڑے تو دشواری نہ ہو ، اور اب تو ازدحام کی وجہ سے پیدل چلنا ہی پڑتا ہے، لہٰذا بقیہ سامان قیام گاہ پر ہی رکھ کر جانا چاہئے ، وہاں سامان منیٰ سے زیادہ محفوظ رہتا