ہوئے تھے ، جس کی وجہ چڑھائی میں بڑی آسانی ہوجاتی تھی ۔
قیام گاہ پر سامان رکھ کر قدرے آرام کرکے حضرت مولانا کے ہمراہ ایک بجے شب میں مسجد حرام پہونچے ، بیت اﷲ شریف کو دیکھ کر ایک عجیب کیفیت دل پر طاری تھی جسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے کرایا نہیں جاسکتا ، میں تحیر کے عالم میں دیر تک ٹکٹکی باندھے اس کے جمال جہاں آراکو دیکھتا رہا ، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں بیت اﷲ کے صحن میں کھڑا ہوں ، کہاں میں اور کہاں یہ مقدس وپاکیزہ سرزمین ، محض حضرت مولانا کی برکت تھی ورنہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس عمر میں یہاں آجاؤں گا ، پھر دعاکے لئے ہاتھ اٹھ گئے ، نہ جانے کتنی دیر تک ازخود رفتگی کے عالم میں ہاتھ اٹھائے رہا ۔ اس کے بعد عمرہ کا طواف شروع کیا گیا ، اس کا مسنون طریقہ تو یہ ہے کہ آدمی حجر اسودکے مقابل آکر اس کوبوسہ دے یا اس کو چھوکر اپنا ہاتھ چوم لے اور اس کے بعد طواف شروع کرے ، مگر اس ازدحام میں یہ ممکن نہیں ، چنانچہ دور ہی سے استلام کرکے طواف شروع کردیا گیا ، اورپورا کرکے زم زم کے کنویں پر گئے اور وہاں ٹنکیاں لگی ہوئی ہیں خوب سیراب ہوکر زم زم پیا ، اور خوب دعائیں کیں ، حدیث میں آتا ہے ماء زمزم لما شرب لہ ،یعنی زم زم کو جس نیت سے پیاجائے اسی کیلئے وہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد صفا پر پہونچے اوروہاں بھی خوب دعا مانگی اور سعی شروع کی ، طواف وسعی کے فارغ ہوکر حلق کروایا، اس میں فجر کا وقت ہوگیا ، اذان کے وقت حرم میں آئے ، بھیڑ کی وجہ سے پہلی منزل پر جگہ ملی ، اذان اول وقت میں صبح صادق کے معاً بعد ہوئی ، دورکعت سنت پڑھنے کے بعد جماعت شروع ہوئی، نماز کے بعد وہاں دعا مانگنے کا دستور نہیں ہے ، نماز کے بعد اعلان ہوا: الصلوٰۃ علی الاموات یرحمکم اﷲ ، میں نے مولانا سے پوچھا یہ کس چیز کا اعلان ہے ، معلوم ہواکہ یہ جنازے کا اعلان ہے ، چنانچہ نماز جنازہ پڑھی گئی ، امام نے صرف ایک ہی طرف سلام پھیرا، میں نے مولانا سے دریافت کیا کہ یہ ایک ہی طرف سلام کیوں پھیرا گیا ، معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے یہاں ایک ہی طرف جنازے میں سلام ہے ، چنانچہ اب وہاں کی تقلیدمیں ہندوستان کے غیر مقلدین بھی جنازہ میں ایک ہی طرف سلام