شَرِیْکَ لَکَ ۔کا دلنواز نغمہ زبان پر جاری ہوگیا۔ دل کی کیفیت بالکل بدل گئی، یہ ایسی حیرت ناک تبدیلی تھی جو مجھ جیسا دل کا اندھا بھی محسوس کررہا تھا ، ورنہ میرا تو حال یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل ہر طرح کے تاثر سے خالی رہتا ہے ، مگر اس موقع پر نہ جانے تجلی الٰہی کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے، وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ سات بجے حکم ہوا کہ حجاج جہاز میں سوار ہوجائیں ، حسب الحکم جہاز میں سوار ہوگئے ، عین پرواز کے وقت معلوم ہوا کہ جہاز میں کوئی تکنیکی خرابی آگئی ہے ، جس کی وجہ سے پرواز میں کسی قدرتاخیر ہوگی ،چنانچہ ایک گھنٹے کے بعد ۹؍ بجے جہاز نے پرواز کی ، اور تقریبا ً ساڑھے پانچ گھنٹہ کی پرواز کے بعد سعودی وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے ہم لوگ کنگ عبد العزیز انٹر نیشنل ایر پورٹ جدہ کے حج ٹرمنل پر پہونچ گئے ، کچھ لوگوں نے ظہر کی نماز جہاز میں پڑھ لی تھی ، میں نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی ، اس لئے کہ جہاز میں پانی کے سلسلہ میں بار بار اعلان کیا جارہا تھا کہ کم سے کم استعمال کریں ورنہ آگ لگنے کا خطرہ ہے ، ایر پورٹ پر اترے تو استنجا اور وضو کا معقول انتظام تھا ،اب محسوس ہوتا تھا کہ اسلامی ملک میں داخل ہوئے ہیں ، یہیں ظہر کی نماز ادا کی ، یہ پہلی نماز تھی جو اس مقدس سرزمین پر ادا کی گئی ۔امیگریشن اور سامان کی چیکنگ میں چھ گھنٹے لگ گئے ، امیگریشن ہال ہی میں عصر کی نماز پڑھی ، وہاں سے نکلتے نکلتے چھ بج گئے ، مغرب کا وقت قریب تھا ، وہیں مغرب کی نماز پڑھ کر معلم کی بس میں سوار ہوئے ، اور آٹھ بجے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ، ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں اپنی قیام گاہ پر پہونچادئے گئے ، ہم لوگوں کی قیام گاہ حرم سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور محلہ اجیاد مصافی میں ایک پہاڑی پر تھی ، میں اور بلال بھائی تو ہلکے پھلکے بدن کے تھے ، ہم لوگوں کے لئے اس پرچڑھنا کچھ دشوار نہیں تھا ، مگر حضرت مولانا جن کا بدن بھاری اور وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض اور انھیں پیدل چلنے کی عادت بھی نہیں ، ان کے لئے قدرے دقت تھی ، اور مولانا کے والدین اور مولانا عزیز الرحمن صاحب گوکہ ضعیف تھے مگر سب کے حوصلے جواں تھے ، اس لئے سب خوش وخرم تھے، ہمارے راستہ میں فندق اجیاد پڑتا تھا یہ مکہ کا معروف ومشہور ہوٹل ہے ، اس کے پاس ایک جگہ راستے میں برقی زینے لگے