آئے ، وہ دیر تک حضرت مولانا سے گفتگو فرماتے رہے ، دورانِ گفتگو انھوں نے حضرت مولانا سے فرمایا کہ ’’ دیکھو حج کے لئے جارہے ہوتو غلام بن کر جانا، یعنی جو کچھ بھی پیش آئے اس کو سہہ لینا اور کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ آئے‘‘ چلتے وقت انھوں نے بسکٹ اور نمکین کی ایک پیکٹ عنایت کی اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا ۔ دوپہر کا کھانا حضرت مولانا زین العابدین صاحب کے یہاں کھایا، اور ان کی دعاؤں کے ساتھ رخصت ہوئے ، ظہر کے وقت دیوبند آگئے ۔ حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی کے یہاں شام کو دعوت تھی ، آٹھ بجے ان کے یہاں حاضر ہوئے ، مدیر ماہنامہ دار العلوم مولانا حبیب الرحمن صاحب جگدیش پوری بھی مدعو تھے ، وہ بھی حج میں جارہے ہیں ، بہت باغ وبہار آدمی ہیں ۔ اتوار کو دوپہر تک دہلی واپس آگئے ۔
احرام کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی انھیں لیا ، اور تیاری مکمل کرکے عشاء کے بعد فوراً ہی سونے کے لئے لیٹ گیا ، اس لئے کہ سویرے ہی ایر پورٹ جانا ہے ، مگر آنکھوں میں نیند کہاں ؟ شدت شوق کی بنا پر آنکھ کھل کھل جاتی ، کل اس دربار کے لئے روانہ ہونا ہے جس کا تصور ہی جان وروح میں ایک اہتزاز پیدا کررہاتھا ، اسی طرح سوتے جاگتے رات گزر گئی ، صبح صادق سے کچھ پہلے اٹھا ، غسل کرکے احرام کے کپڑے پہن لئے ، اور اول وقت میں فجر کی نماز پڑھ کر ایر پورٹ روانہ ہوگئے ، فلائٹ صبح آٹھ بجے تھی ، مگر ایر پورٹ یہاں سے کافی دور ہے اس لئے اتنے سویرے روانہ ہوناپڑا ، ایر پورٹ پہونچے تو کافی بھیڑ بھاڑ تھی ، سبھی لوگوں سے مصافحہ ومعانقہ ہوا، اخیر میں اپنے برادر مکرم فیض الحق بھائی سے ملا ، ان سے مل کر دل امنڈ آیا ، اور وہی کیفیت ہوئی جو والدہ سے ملتے وقت ہوئی تھی، ان کے لئے خوب خوب دعائیں کی ، باری تعالیٰ قبول فرمائے اور ان کا ظہور فرمائے ،آمین۔ اس کے بعد ایر پورٹ کے اندر پہونچ گئے ، حج کمیٹی کے لوگ جگہ جگہ رہنمائی کے لئے موجود تھے ، وہیں دورکعت نماز پڑھ کر احرام کی نیت کی اور سرسے چادر اتاردی ، اور لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا