آنکھیں برسنا شروع ہوگئیں ، دیر تک یہی کیفیت رہی ، ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ۔ سب سے مل ملاکر دورکعت نماز پڑھی اور ۱۱؍ بجے والد صاحب اور دیگر اہل خانہ کے ہمراہ مئو روانہ ہوگیا، سمتا اکسپریس( موجودہ لیچوی) سے ٹکٹ تھا ، اس کا وقت سوابجے ہے ، جیسے ہی اسٹیشن پر پہونچا تھوڑی دیر کے بعد حضرت مولانا بھی آگئے ، اسٹیشن پر محدث کبیر حضرت مولاناحبیب الرحمن الاعظمیؒ کے صاحبزادے حضرت مولانا رشید احمد صاحب بھی ملنے آئے تھے ، ان سے اور دیگر تمام لوگوں سے مل کے اور ان کی دعائیں لے کر حج کے لئے روانہ ہوا۔ باری تعالیٰ حج مقبول ومبرور نصیب فرمائے جس کا بدلہ جنت ہی ہو۔آمین
ایک بجے ٹرین آئی ، ہم لوگ سوار ہوئے ، ابھی ٹرین کی روانگی میں دس منٹ باقی تھا ، حضرت مولانا نے ٹرین ہی میں سے ایک مختصر وجامع تقریر کی ، خود روئے اور ہم سب کو رلایا ، اس کے بعد دعا کی ۔ سوا بجے ٹرین روانہ ہوئی۔
دوسرے دن صبح چھ بجے پرانی دلی ریلوے اسٹیشن پہونچ گئے ، وہاں سے دفتر جمعیۃ علماء ہند آگئے ، قیام یہیں رہے گا ، یہاں پہونچتے ہی مولانا نوشاد احمدصاحب مل گئے ، نہایت مستعد اور خدمت گزار شخص ہیں ، ان کی وجہ سے بڑی راحت رہتی ہے ، انھوں نے ہم لو گوں کی خوب خدمت کی ، آٹھ بجے بھائی صاحب بھی آگئے ، ان کا ٹکٹ بنارس سے ڈی لکس سے تھا ، ان دونوں حضرات نے ہم لوگوں کو ہر طرح کی دفتری کاروائیوں سے فارغ کردیا، جزاھما اﷲ عنا خیر الجزا۔حضرت مولانا نے فرمایا کہ دودن کا وقت ہم لوگوں کے پاس ہے ، جی چاہتا ہے کہ سہارن پور چل کر اپنے استاذ محترم حضرت مولانا زین العابدین صاحب معروفی مدظلہ ( صدر شعبہ تخصص فی الحدیث ،جامعہ مظاہر علوم ،سہارن پور) سے ملاقات کرلوں ، چنانچہ ہم لوگ ایک سپر فاسٹ سے چل کر عصر کے وقت دیوبند پہونچے ، قیام مہمان خانہ میں رہا ۔ یہاں کے اساتذہ اور دوسرے حضرات سے ملاقاتیں رہیں ، دوسرے دن شنبہ کی صبح نو بجے سہارن پور پہونچے،حضرت مولانا زین العابدین صاحب مل کر بہت خوش ہوئے ، وہاں سے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدظلہٗ کے یہاں