نے اسے منظور کرلیا ، اس لئے کہ بظاہر احوال ایسے نہیں تھے کہ میرا جانا ممکن ہوتا ، مگر جب اﷲ تعالیٰ کو بلانا منظور ہوا تو اسباب خود بخود پیدا ہوتے چلے گئے ، اس طرح کل پانچ افراد ہوگئے ۔حضرت مولانا ، ان کے والدووالدہ، حاجی بلال صاحب اور میں ، اخیر میں جامع مسجد بھیرہ کے امام وخطیب اور تبلیغی جماعت کے امیر ،حضرت مولانا کے استاذ محترم حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب مدظلہٗ بھی تیارہوگئے ۔ اس طرح کل چھ افراد کافارم ایک ساتھ بھردیا گیا۔
وقت گذرتا رہا، اس وقت میں شیخوپورمیں جلالین شریف کا طالب علم تھا ، اسی سال دیوبند جانا تھا ،چنانچہ شوال کی ابتدائی کسی تاریخ میں داخلہ امتحان کے لئے دیوبند روانہ ہوگیا ، یہاں بھی ا ﷲکا فضل شامل حال رہا، اچھے نمبرات سے داخلہ امتحان میں کامیاب ہوا، اور تعلیم شروع ہوگئی ۔ اسی دوران گھر سے اطلاع ملی کہ تمہاری فلائٹ ۷؍اپریل کو ہے ، اس لئے دوچارروز پہلے گھر آجاؤتاکہ اعزاء واقرباء اور متعلقین سے ملاقات کرکے ان سے دعائیں لے لو، گھرسے دہلی کے لئے ریزرویشن ۳؍ اپریل جمعرات کو تھا ۔ میں ایک ہفتہ قبل ۲۷؍ مارچ مطابق ۱۷؍ ذی قعدہ جمعرات کو دوماہ کی چھٹی لے کر دیوبندسے گھر کیلئے روانہ ہوا، اور جمعہ کی شام کو گھر آگیا ، ایک ہفتہ گھر پر رہا ، یہ ہفتہ لوگوں سے ملاقات میں نکل گیا ۔۳؍ اپریل جمعرات کو روانگی تھی ، اس کی تفصیلات اپنی ڈائری (۱۹۹۷ء) سے نقل کرتا ہوں ، اس کے صفحہ ۳؍ اپریل ، ۲۴؍ ذی قعدہ پر درج ذیل تحریر ہے:
’’آج سفر حج کو روانگی ہے ، صبح صادق سے قبل بیدار ہوگیا ، نماز پڑھ کر خدا کے حضور اپنے گناہوں کی معافی چاہی ، اور قبولیت حج کی دعا کی ۔ فجر کی نماز کے بعد لوگ ملاقات کے لئے آنے لگے ، اسی میں نو بج گئے ، نو بجے ناشتہ کیا اور تمام اہل خاندان سے مل کر اپنی غلطیوں اور فروگزاشتوں کی معافی چاہی ، اور دعاؤں کی درخواست کی ، یہی وہ موقع ہوتا ہے جب دل کی کدورتیں اور رنجشیں آنسوؤں میں ڈھل کرنکل جاتی ہیں ، میرا بھی دل بھر آیا، بالخصوص والدہ محترمہ سے مل کر تو دل بالکل بے قابو ہوگیا اور