بڑے میرے تلامذہ بھی مجھے ’’حاجی بابو‘‘ ہی کہتے ہیں ۔ ابتداء ً یہ بات مجھے بڑی عجیب لگتی تھی، مگر ایک دن میرے ایک استاذ کہنے لگے کہ اجی! تمہارا حج کتنا مقبول ہوا کہ تمہارے بڑے چھوٹے سب ہی تم کو ’’حاجی بابو‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ سن کر مجھے بڑی مسرت ہوئی اور اسے اپنے لئے شگونِ نیک سمجھا اور قبولیت حج کی علامت!
دوسری مرتبہ حاضری اس وقت ہوئی جب میں دار العلوم دیوبند میں درجہ مشکوٰۃ شریف کا طالب علم تھا ۔ یہ حاضری سیّدی ومولائی، شیخی واستاذی حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی متعنااﷲ بطول حیاتہ وبدوام فیوضہ کی معیت میں ہوئی، یہ ۱۹۹۷ء کا واقعہ ہے ۔ اس کی تقریب یہ ہوئی کہ حضرت مولانا مدظلہٗ کے والدمحترم الحاج قاضی محمد شعیب صاحب کوثرؔ پر حج فرض تھا ، ان کے متعلقین واحباب ان سے کہتے تھے کہ آپ پر حج فرض ہے ، اسے ادا کرکے آپ اپنے فریضہ سے سبکدوش ہوجائیں ،مگر وہ اپنے تدین وتقویٰ کے باوجود طبیعت کی کمزوری کی بنا پر اس طویل سفرکی ہمت نہیں کرپارہے تھے ، امسال جب ان پر زیادہ زور دیاگیا تو انھوں نے کہا کہ مولوی اعجاز صاحب بھی چلیں تو آسانی رہے گی۔ حضرت مولانا اس وقت تک دوحج کرچکے تھے ، پہلے حج کی روداد تو بطوافِ کعبہ رفتم۔۔۔ کی صورت میں آپ حضرات کے سامنے ہے ، دوسرا حج مولانا نے ۱۹۹۱ء میں کیا ۔ جب والد صاحب کی یہ بات ان کے گوش گزار کی گئی تو وہ اپنی بے سروسامانی کے باوجود محض توکلاً علی اﷲوالد صاحب کی منشا کے احترام میں تیار ہوگئے ، اور انھوں نے اپنے چچازاد بھائی حاجی محمدبلال صاحب سے کہا کہ تم تو جانتے ہی ہوکہ میں خود ہی خدمت کا محتاج رہتا ہوں میں والد صاحب کی خدمت کیا کرپاؤں گا، والد صاحب تم سے مانوس ہیں ، ا س لئے تم بھی فارم بھردو، انھوں نے اپنی بے سروسامانی کا عذر کیا تو حضرت مولانا نے فرمایا کہ میں ہی کون ساانتظام اور ساز وسامان رکھتا ہوں ، بہر حال مولانا کے حوصلہ دلانے پر وہ بھی تیار ہوگئے۔ حضرت مولانا کو دیکھ کر میرا جذبۂ شوق بھی انگڑائیاں لینے لگا، دبی زبان میں اس کا تذکرہ والد صاحب اور بڑے بھائی فیض الحق صاحب سے کیا ، نہ جانے قبولیت کی وہ کون سی گھڑی تھی کہ ان لوگوں