کبھی کوئی چیز پکتی ہوئی دیکھی نہیں جاتی تھی ، شاید چائے بنتی رہی ہو ، لیکن بافراط اور تنوع کے ساتھ کھانا اسی سے آتا رہتا ، اور جب کوئی پہونچتا اسی وقت آتا، میرا اندازہ ہے کہ حضرت مولانا جب تک اس میں موجود ہوتے دسترخوان بچھا ہی رہتا ۔ لوگ آتے رہتے ، مولانا بچھے جاتے ، شکریہ ادا کرتے اور کھلاکر خوش ہوتے رہتے ۔
اسی عمارت میں پاکستان کے ایک بزرگ مولانا محمد عارف صاحب رہتے تھے ، ان کی خدمت میں ایک مرتبہ حاضری ہوئی ، مولانا عبد اﷲ صاحب کاتذکرہ آیاتو فرمانے لگے ، ان پر غیب کی برکتیں کھل گئی ہیں ۔
میں نے حضرت مولانامحمدعارف صاحب مدظلہٗ (پاکستان)سے دعا کی درخواست کی ، کہ بار بار حاضری کی سعادت حاصل ہو ، فرمایا کہ ہر نماز کے بعد وَعَدَ اﷲُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَااسْتَخْلِفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ أَمْناً ( سورہ :نور ،آیت:۵۵) گیارہ مرتبہ پڑھ لیا کریں ، ان شاء اﷲ بار بار یہ سعادت نصیب ہوگی۔
مدینہ منورہ میں مولانا حکیم الدین صاحب جونپوری سے خوب ملاقاتیں رہیں ، اور ان کی وساطت سے پاکستان کے رہنے والے مولانا حافظ محمد مسعود صاحب ، ڈاکٹر شمیم احمد صاحب اعظمی اور دوسرے رفقاء سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ، ان حضرات نے خدمت ومیزبانی کاحق ادا کیا ۔ اﷲ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائیں ۔
بعد کے حجوں میں ان دونوں بزرگوں نے استحقاق سے بہت زیادہ قدر ومنزلت کی اور خدمت کی ۔ جزاھم اﷲأحسن الجزاء
(یہ سفر حج ۱۴۱۱ھ مطابق ۱۹۹۱ء میں ہواتھا ، یہ تحریر اس کے ۱۷؍سال بعد لکھ رہا ہوں ، اس لئے سہو کاامکان ہے ، مگر تابمقدوراحتیاط سے لکھا ہے۔)
٭٭٭٭٭