ایک روزصبح آئے ، اپنی گاڑی پر بٹھایااور میدان عرفات جو اس وقت بالکل خالی پڑا ہواتھا، اس سے گزرتے ہوئے، ایک بہت بڑے مسطح میدان میں لے گئے ، اور بتایا کہ یہ میدان سہل مغمَّس کہلاتا ہے، ابرہہ جو خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لئے ہاتھیوں کو لے کر آیاتھا ، یہیں ٹھہرا تھا ، پرندوں کی فوج نے یہیں اس پر حملہ کیا تھا ، اور یہیں وہ پوری فوج ہاتھیوں سمیت کھائے ہوئے بھس کی طرح ہوکر رہ گئی تھی۔ سورہ الم تر کیف کی تفسیر آنکھوں میں پھر گئی ۔ انھوں نے بتایا کہ یہ جو مشہور ہے کہ وہ ہاتھیوں کو چڑھا کر منیٰ میں وادیٔ محسر تک لایاتھا ، اور وہیں اس پر بلا نازل ہوئی تھی، یہ صحیح نہیں ہے، وہ اس میدان سے آگے نہیں بڑھا تھا ، وہیں انھوں نے ابورغال کی قبر دکھائی ، جو رہبر بن کر ابرہہ کو لایا تھا ، اور وہیں وہ بھی مرا تھا۔ اہل عرب حج کے موقع پر اس کی قبر پر بھی کنکریاں برساتے تھے ۔
میں نے پوچھا کہ رسول اﷲ ا نے وادی محسر سے تیزی سے گزرنے کا حکم دیا، اس کی توجیہ یہی سنی جاتی ہے کہ ابرہہ پر یہاں عذاب آیاتھا ، اس لئے اس سے جلد گزرناچاہئے ، کہنے لگے ایسا نہیں ہے ، رسول اﷲ ا نے ہروادی سے اپنے لوگوں کو بچایا ہے، کیونکہ وادی میں کبھی کبھی اچانک پانی کی سیل آجاتی ہے ، اس وقت اس میں جو ہوتا ہے بہہ جاتا ہے ، چنانچہ حج کے مناسک میں جہاں جہاں وادی کا تذکرہ ہے، وہاں ٹھہرنے اور رُکنے سے منع کیا گیا ہے۔
سہل مغمس کے آس پاس ہی انھوں نے وادی نعمان کی نشاندہی کی ، جہاں سے نہر زبیدہ میں پانی آیا کرتا تھا ، پھر ہم کو اس آخری حد تک لے گئے ، جہاں تک حج کے ویزے میں گنجائش ہوتی ہے ، پھر ایک طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ادھر وادی حنین ہے ، جہاں جنگ حنین ہوئی ، اور مسلمانوں میں بظاہر شکست کے آثار ظاہر ہوئے۔
ہم لوگ تعجب سے ادھر ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں ، دل میں خیالات کی موجیں چل رہی تھیں کہ ہم تیزرفتار گاڑی سے بہترین سڑک پر پھسلتے ہوئے آئے ہیں ، رسول اﷲ ا اونٹوں اور گھوڑوں پرسوار ہوکر ان پہاڑی راستوں سے اتنی دور کتنی مشقت سے پہونچے