تجوید القرآن |
وسٹ بکس |
|
رسول اللہ ﷺکاارشادہے کہ : (اِنَّمَاالأعمَالُ بِالنّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیٍٔ مَانَوَیٰ(۱) ترجمہ: (اعمال کادارومدارنیتوں پرہے،اوریقیناہرایک کووہی کچھ ملے گاجسکی اس نے نیت کی ہے)۔ مذکورہ نصوص کی روشنی میں کسی بھی عمل کی صحت ودرستی اورعنداللہ قبولیت کیلئے اخلاصِ نیت اولین اوراہم ترین شرط ہے،بصورتِ دیگرانسان کی عبادت اوراس کااچھاعمل بھی اس کیلئے خیروبرکت اورباعثِ اجروثواب ہونے کی بجائے اس کیلئے وبال اورباعثِ عذاب بن جائیگا،لہٰذاتلاوتِ قرآن کریم کے موقع پربھی ریاء کاری اورنام ونمودسے بچنااورنیت کوخالص رکھناانتہائی ضروری ہے۔(۲) طہارت وپاکیزگی کااہتمام : تلاوتِ قرآن کریم کے وقت طہارت وپاکیزگی کامکمل اہتمام کیاجائے،تلاوت کرنے والاباوضوء ہو(۲)جسم و لباس پاک وصاف ہو، جس جگہ تلاوت کی جارہی ہووہ جگہ پاک وصاف ہو، تلاوت سے قبل مسواک کرلینا(ورنہ کسی بھی طرح منہ کی صفائی)مزید بہترہے، ------------------------------ (۱)قرآن کریم میں ارشادہے:{لَایَمَسُّہٗ اِلَّاالمُطَھَّرُونَ}[الواقعہ:۷۹]یعنی:(اس[ قرآن] کونہیں چھوسکتے مگرصرف پاک لوگ)یہاں طہارت وپاکیزگی سے کیاچیز مرادہے؟ ’’کفروشرک‘‘سے طہارت ؟ ’’حدثِ اکبر‘‘ (یعنی غسل کی حاجت ہونا) سے طہارت؟ یا’’حدثِ اصغر‘‘ (یعنی وضوء کی حاجت)سے طہارت؟ اس سلسلہ میں تفصیل ہے ،جس کاخلاصہ یہ ہے کہ ’’کفروشرک‘‘ سے طہارت تویقیناضروری ولازمی ہے۔ ’’حدثِ اکبر‘‘کی حالت میں بھی مسِ مصحف یعنی :قرآن کریم کوچھونانیزقرآن کی تلاوت دونوں ہی ممنوع ہیں۔ جبکہ’’حدثِ اصغر‘‘کی حالت میں قرآن کریم کوچھونااکثراہلِ علم کے نزدیک ناجائزہے،البتہ چھوئے بغیرتلاوت جائزہے،لیکن کلام اللہ کے تقدس اورادب کاتقاضایہی ہے کہ انسان تلاوتِ قرآن کے وقت باوضوء ہو۔واللہ اعلم۔مزیدتفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: فقہ السنۃ ،از:سیدسابق[۱؍۵۶](مایجب لہ الوضوء) نیز: [۱؍۶۷](مایحرم علیٰ الجنب)۔