ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
سب اعمال پر توقع اجر کی ہے ـ حضرت عمر نے فرمایا کہ جو اعمال ہمارے حضورؐ کی معیت میں ہوئے ہیں وہ تو مقبول ہو جاویں اور حضور کے بعد جو ہوئے ہیں اگر ان پر مواخذہ نہ ہو تو غنیمت ہے اجر کی ہم ہوس نہیں کرتے ) مطلب یہ ہے کہ جو ان میں کوتاہی ہے وہ معاف فرمائے ، کیونکہ ہم اپنی طاعات سمجھ رہے ہیں ، وہ در حقیقت طاعات ہی کب ہیں ـ جس طرح کوئی بے ڈھنگے طور سے پنکھا جھل رہا ہو یا اور کوئی خدمت کر رہا ہو تو وہ تو اپے جی میں بڑا خوش ہو گا کہ ہم خدمت کر رہے ہیں ـ حالانکہ بعضوں کی خدمت سے سخت اذیت ہوتی ہے ـ لیکن محض دل شکنی کی وجہ سے ان کو منع نہیں کیا جاتا ـ اسی طرح ہماری طاعات ہیں ـ کبھی کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ہم نے گھنٹہ بھر تک اللہ اللہ کیا ہے ـ یہ خبر نہیں کہ وہاں کچھ پوچھ تک بھی نہیں ہوئی ـ ایسی طاعات پر میں کہتا ہوں کہ ہم لوگوں پر اگر مؤاخذۃ نہ ہو تو غنیمت ہے ـ درجات کی تو اہل درجات تمنا کریں ـ یہاں تو بس یہ التجا ہے کہ حق تعالی سزا سے بچاویں ـ خواہ جنت میں صف نعال ہی میں جگہ مل جائے ـ در ہدیہ کے ذکر کے سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ حضرت حاتم اصمؒ کی حکایت ہے یا کسی اور بزرگ کی کہ ایک شخص نے ہدیہ پیش کیا ـ آپ نے واپس فرما دیا ـ اس نے دوبارہ پیش کیا تو لے لیا ـ کسی خادم نے عرض کیا کہ حضرت آپ تو بہت تو بہت جلد راضی ہو گئے ـ فرمایا کہ بھائی میرے نہ لینے میں ہدیہ والے کی ذلت تھی ـ اور میرے لینے میں میری ذلت ہوئی ـ میں نے اپنے بھائی مسلمان کی عزت کو اپنی عزت پر ترجیح دی ـ اللہ اکبر ! یہ حضرات تھے واقعی اللہ والے ـ ہر قول اور ہر فعل کے پر از خطر ہونے کی تقریر کے سلسلہ میں ایک اور حکایت فرمائی کہ ایک درویش بلا قصور کسی جرم میں ماخود ہو کر جیل خانہ پہنچ گئے ـ انہوں نے دل میں خیال کیا کہ یا اللہ ! کون سی خطا میں یہ سزا ملی ہے ـ گو خطائیں ہر وقت ہی سرزد ہوتی رہتی ہیں لیکن چونکہ وہ عارف تھے اس لئے یہ سمجھتے تھے کہ کسی نئی خطا پر نئی سزا دی گئی ہے ، ورنہ سینکڑوں خطائیں ہر وقت معاف ہوتی رہتی ہیں ـ کیونکہ ہر خطا پر سزا ہو تو کہیں ٹکانہ ہی نہ رہے ـ الغرض ان درویش صاحب کو یہ سوچ ہوا ـ الہام ہوا کہ یاد کرو تم نے ہم سے دعا کی تھی کہ یا اللہ ! بس دو روٹی اس وقت اور دو روٹی اس وقت کھانے کو مل جایا کریں ، چنانچہ ہم نے اس کا سامان کر دیا ـ تم نے یہ نہیں کہا تھا کہ عافیت کے ساتھ ملیں ـ اگر تم صرف عافیت طلب کرتے