ملفوظات حکیم الامت جلد 16 - یونیکوڈ |
|
صرف یہ تمنا ہے کہ جنت میں جگہ مل جاوے ، چاہے جنتیوں کی جو تیوں ہی میں ہو اور یہ تمنا تھی بطور استحقاق کے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ عذاب کا تحمل نہیں ـ تکلیف سے ناگواری -ایک مولوی صاحب کو خط اس طرح لکھا تھا : از احقر انام اشرف برائے نام ـ بخدمت الخ ----- احقر اسے مادہ تاریخی مذکورہ بالا کا لطیفہ فرما چکے تھے ـ اس کے بعد ایک صاحب نے بلا مشورہ و اجازت مٹھائی بازار سے منگا کر بطور ہدیہ پیش کی ـ حضرت نے نا پسند فرمایا کہ جب آپ نے یہیں سے منگائی ہے تو مجھ سے بے تکلف دریافت کرلینا چاہئے تھا ـ کونکہ دیکھئے آپ کا تو روپیہ خرچ ہوا اور میرے یہاں یہ مٹھائی کسی کام نہ آئے گی ـ میرے کوئی بچہ نہیں جو کھائے - بس ہم دو میاں بی بی ہیں ـ مٹھائی کا شوق نہیں ـ اب سوائے اس کے کہ اوروں کو تقسیم کر دی جاوے اور کیا ہو سکتا ہے ـ احسان اور بوجھ تو میرے اوپر ہوا ـ اور فائدہ دوسروں کا ہوا ۤ- بھلا ایسے ہدیہ لینے سے کیا جی بھلا ہو ـ چونکہ قاعدہ بات ہے اس لئے اگر کوئی اور ہوتا تو واپس کر دیتا ، لیکن آپ کی دل شکنی کے خیال سے خیر اتنا کرتا ہوں کہ نصف لی ونصف لک آدھی میں لے لوں گا ، آدھی آپ رکھئے تاکہ آپ کو بھی تو معلوم ہو کہ بے دلی سے جو چیز کھائی جاتی ہے وہ کیسی بری معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ آپ کھائیں گے لیکن مزہ نہ آئے گا تو معلوم ہوگا کہ دوسرے کو بھی کچھ مزہ نہ آیا ہوگا ـ آئندہ ایسی باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ـ یہ آپ نے تلکف کا برتاؤ کیا ـ افسوس ہے اتنے دن ملتے جلتے ہو گئے لیکن میری طبیعت کا انداز آپ کو معلوم نہیں ہوا ـ اب آپ ہی اس مٹھائی کے دو حصے آدھے آدھے کیجئے (ہنس کر فرمایا) لیکن استادی نہ کیجئے گا ـ ان صاحب نے اپنی طرف کا حصہ کم رکھا اور حضرت کی طرف کا زیادہ ـ حضرت نے ان کی طرف کا حصہ اٹھا لیا کہ اب آپ اس کے خلاف تو کہہ ہی نہیں سکتے کہ یہ آدھا نہیں ہے ، کیونکہ آپ کے نزدیک اس کا آدھا ہونا مسلم ہے ـ وہ صاحب بے چائے دیکھتے رہ گئے ـ حضرت نے احقر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھئے میرا مادہ تاریخی مکر عظیم ٹھیک ہے یا نہیں ـ میں آخر شیخ زادے بڑے فطرتی ہوتے ہیں ـ مجھے بھی فطرتیں بہت آتی ہیں لیکن الحمدللہ انہیں کبھی استمال نہیں کرتا ہوں ـ ہاں ! اگر