جایاکرتے تھے، یہ آیت ازواج مطہراتؓ کی تبدیلی کی حرمت کے بعد، مباح ہونے پر محمول ہے۔ ابن قشیری اس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں کہ شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے باری واجب تھی، پھراس آیت سے وجوب منسوخ ہوگیا۔
(۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنی ازواج کو نفقہ دینا،واجب تھا، اس میں بھی وہی دوقول ہیں جومہرکے سلسلہ میں گذرچکے ہیں ، صحیح یہ ہے کہ واجب تھا، جیساکہ امام نووی نے روضہ میں ذکرکیاہے۔
(۸-۹-۱۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جس عورت سے چاہیں ، بغیراس کے اوراس کے ولی کی اجازت کے نکاح کرناجائزتھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جانب سے ولی ہیں ، بغیر اس کی اور اس کے ولی کی اجازت کے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکو مؤمنین کے لئے ان کی جانوں سے زیادہ اولی قراردیا ہے، حنّاطی نے اس کی مخالفت کی ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہؓ سے اجازت چاہی تھی ،شایدیہ اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لطیف طبیعت کی وجہ سے لی تھی۔
(۱۱) حضرت زینبؓ کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے نکاح فرمادیاتھا،اس نکاح کی وجہ سے حلال تھیں ۔ دلیل ’’وَزَوَّجْنٰکَہَا‘‘ہے ،کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت زینبؓ سے کردی ہے ۔ اسی وجہ سے حضرت زینبؓ تمام ازواج مطہرات پر فخر کیاکرتی تھیں ۔ اس حدیث کو حضرت انسؓ کے واسطہ سے امام بخاریؒ نے روایت کیاہے مگر ہمارے بعض علماء نے اس کاانکار کیاہے اورکہاہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کاارادہ فرماتے، تو فرمالیتے مگر ’’زَوَّجنٰکہا‘‘ کے معنی ’’أحللنا‘‘ کے ہیں ،یعنی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان کا نکاح حلال کردیا۔ قضاعی نے اس خصوصیت کو ان میں شمارکیاہے ،جودوسرے انبیاء کو نہیں دی گئیں ۔
(۱۲) ایک قول کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے معتدہ سے نکاح کرنا حلال تھا،