اے ایمان والو بلندنہ کرو اپنی آوازیں ، نبی کی آواز سے اوپر
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو،گھرسے باہربلانے کے لئے،آواز دیکر بلانا جائزنہیں تھا، جیساکہ قرآن میں ہے:
إِِنَّ الذِیْنَ یُنَادُونکَ مِنْ وَّرَائِ الحُجرَاتِ أَکْثرُہُمْ لایَعْقِلُون الآیۃ۔(۱)
جولوگ پکارتے ہیں تجھ کو دیوار سے پیچھے سے، وہ اکثر عقل نہیں رکھتے۔
قرطبی کہتے کہ ’’لاتجہروا لہ بالقول‘‘کے معنی یہ ہیں کہ یا محمداور یا احمد کہہ کر نہ پکارو، بلکہ عظمت واحترام کے ساتھ، یا نبی اللہ یارسو ل اللہ ا کہو۔
چوبیسویں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانام نامی لیکر پکارناجائزنہیں بلکہ یا نبی اللہ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر مخاطب کرناچاہئے، اس حدیث کی وجہ سے ،جس کو حضرت انسؓ نے روایت کیا ہے۔
پچیسویں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اورپیشاب اورخون، یہ تمام فضلات، ہمارے علماء کے ایک قول کے مطابق پا ک تھے، جب کہ تمام انسانوں کے بال وغیرہ ناپاک ہیں ، اسی قول کو اختیارکرنا بہترہے،کیونکہ قاضی حسین نے ہمارے علماء [شوافع]سے اسی کا صحیح ہونا نقل کیا ہے۔ امام نووی نے روضہ میں لکھاہے کہ ،ان سے شفااوربرکت حاصل کی جاتی تھی، یہی سہیلی اوررافعی کہتے ہیں ، اس حدیث کی وجہ سے، جس میں بیان کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوف مبارک کو،سونے کے طشت میں رکھ کر،برف سے دھویاگیاتھا،[اس سے] آنحضرت ا کا خون اورپیشاب پاک ہوگئے تھے۔
رافعی نے ابوجعفر ترمذی سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرچیز کے پاک ہونے کی روایت نقل کی ہے۔ لیکن ماوردی نے اپنی کتاب حاوی میں لکھاہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اورخون
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات آیت:۴۔ط