یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں تھی، بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام اس میں شریک ہیں ۔ جیسے کہ حضرت زبیرؓوغیرہ کی احادیث، نسائی کی سنن کبریٰ میں موجودہیں :
’’ اِنَّامَعْشَرَ الأنْبِیَاء لانُورثُ مَاتَرکنَاہُ فَہُو صَدَقۃ۔‘‘(۱)
ہم انبیاء [علیہم السلام]کی جماعت وارث نہیں بناتے، جوکچھ ہم چھوڑیں ، وہ صدقہ ہوتاہے۔
بلاشبہ اس کے ذریعہ سے نبی اپنی امت سے ممتاز ہوتا ہے۔
ساتویں : حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علم کے مطابق فیصلہ فرماتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسروں کے بارے میں اختلاف ہے ۔امام بیہقی کہتے ہیں کہ اس کی دلیل حضرت ہندؓ کا وہ قصہ ہے جوصحیحین میں مذکورہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا تھا، اس کے مال میں سے، جتنا اپنے لئے اور اولاد کے لئے مناسب ہولے لو،یہ فیصلہ ہے ، فتوی نہیں ۔اس حدیث میں اضطراب ہے ،جس کی میں [علامہ ابن الملقن]نے عمدہ کی شرح میں ،وضاحت کی ہے۔
آٹھویں : صحیح قول کے مطابق ،نبی کریم ا کو اختیار تھاکہ اپنے اوراپنی اولاد کے حق میں فیصلہ کردیں ،اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام گناہوں سے محفوظ تھے۔ اوروں کے لئے اپنی اولاد کے فیصلہ کرنے کے سلسلہ میں تفصیل ہے، ماوردی نے یہ رائے نقل کی ہے اوراس کے ساتھ ایک صورت اورذکر کی ہے کہ یہ (فیصلہ) اقرارکی بنیادپرجائزہے، بینہ یعنی ثبوت وگواہ کی بنیاد پرنہیں ، گواہ کو عاد ل قراردینے کے سلسلے میں تسامح کی تہمت کی وجہ سے ۔قضاعی نے اس خصوصیت اوراس کے بعدآنے والی خصوصیت کو، ان خصائص میں سے قراردیاہے ،جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں ،اورانبیاء علیہم السلام اس میں شامل نہیں ۔
------------------------------
(۱) السنن الکبریٰ ۷/۱۱۱، کتاب الفرائض، باب مواریث الأنبیاء وزارۃ الاوقاف والشؤن الإسلامیۃ دولۃ قطر، ۱۴۳۳ھـ ۲۰۱۲ء