علامہ ماوردی فرماتے ہیں : پھراس سلسلہ میں بھی علماء کااختلاف ہے کہ کس معاملہ میں مشورہ مرادہے، بعض علماء کی رائے ہے کہ خاص طورپرجنگ کے متعلق اوردشمن کے مکائد سے بچنے کے لئے مشورہ کرنا۔ دوسر ے بعض علماء نے کہاہے، کہ دین اوردنیا کے معاملات میں ، امت کو احکام کی علتوں اوراجتہادکے طریقوں پر متنبہ کرنے کے لئے، مشورہ کرنا مراد ہے۔ثعلبی کہتے ہیں ،کہ ان امورمیں مشورہ کرنا مرادہے، جن امورمیں ،اللہ کی جانب سے کوئی حکم نازل نہیں ہوا،دلیل اس کی یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکی قرأت میں : ’’وَشَاوِرْہُمْ فِي بَعْضِ الأَمْرِ‘‘آیاہے۔
ساتواں مسئلہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم اپردشمن کامقابلہ کرناواجب تھا، چاہے ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو،اور امت کے لئے ثابت قدمی، اس وقت واجب ہے، جب کہ دشمن کی تعداد، دوگنی سے زیادہ نہ ہو۔
امام بیہقی نے اپنی سنن میں اس خصوصیت پرباب قائم نہیں کیاہے۔
آٹھواں مسئلہ : جس مُنْکَر کودیکھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم ا کے لئے، اس کاروکنا واجب تھا۔ امت کے لئے اس وقت روکناواجب ہے ،جب اس کو روکنے کی قدرت ہو،وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ا کومامون ومحفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا تھا۔’’ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس‘‘ (۱ ) [اوراللہ تجھ کو بچالے گا لوگوں سے] غیرنبی کے لئے، کوئی وعدہ نہیں کیاگیا۔
نوواں مسئلہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرم اپر،ہراس مؤمن کے قرض کی ادائیگی واجب تھی، جوتنگی کی حالت میں انتقال کرگیاہو،جیساکہ صحیحین میں ، حضرت ابوہریرۃ ؓ کی حدیث ہے کہ مقروض کی نمازجنازہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیاتھا ،کہ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو، پھرجب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کا دروازہ کھول دیا، اس وقت ارشاد فرمایاکہ: جس کے ذمہ قرض ہو،اور وہ
------------------------------
(۱) المائدہ:آیت:۶۷