برہان حلبی[سبط ابن عجمی] کے بقول: تصنیف میں یگانہ روزگار تھے، تصنیف کے باب میں ان کی تحریریں واضح اور شستہ ہیں ، اور احسان اور تواضع کے باب میں بھی قابل تعریف گردانے جاتے تھے۔
حافظ نے انباء الغمر میں لکھاہے کہ کثرت تصانیف کی برکت سے ،دنیا ان کے لئے کشادہ ہوگئی تھی، او ران کی تصانیف کی تعداد ،بشمول چھوٹی بڑی کتابوں کے، تین سو ہوتی ہے۔۱؎
شیوخ وتلامذہ: علامہ تقی الدین سبکی ،علامہ جمال الدین اسنوئی ، کمال الدین نشائی اور عزالدین بن جماعہ علم فقہ کے استاد تھے، ابوحیان ، جمال الدین بن ہشام ، شمس محمد بن عبدالرحمن صائغ علم عربیت کے اور برہان رشیدی علم قرأت کے استاذ تھے، حصول علم حدیث کا شرف ابوالفتح ابن سید الناس یعمری، قطب الدین حلبی، علامہ مغلطائی، زین الدین ابوبکر رحبی، جن سے بخاری شریف پڑھی، اور مصرمیں ابن عبدالدائم کے بے شمار شاگردوں سے حاصل کیا، جن میں سے ابوعبداللہ سراج کاتب، محمد بن غالی، عبدالرحمن بن عبدالہادی، احمد بن کشتغدی، حسن بن سدید، احمد بن محمد بن عمر حلبی، احمد بن علی بن مشتولی، محمد بن احمد فاروقی، ابوالقاسم میدومی اور ابراہیم بن علی زرزاری قابل ذکر ہیں ۔
علامہ سخاوی کے بقول، متقدمین کی ایک جماعت سے اجازت حدیث کا شرف بھی حاصل کیا، جن میں ابن مالک نحوی اورامام محی الدین نووی سرفہرست ہیں ۔
علامہ مزی اورشیخ شمس الدین عسقلانی کے علاوہ مصروشام کے دیگر علماء نے اجازت حدیث سے ان کو نوازا تھا۔
ان کے بے شمار شاگردوں میں سے ابراہیم بن محمد بن خلیل حلبی شافعی ہیں ، جو سبط
------------------------------
(۱)الضوء اللامع:۵/۴۲